اسلامی انقلاب - دین اور معنویت کی جانب بازگشت
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
ایرانی عوام نے خدا کے لئے قیام کیا اور اسلام کی انسان ساز اور ترقی یافتہ تعلیمات کی بنیاد پر ہی یہ انقلابی تحریک شروع ہوئي تھی۔ اس انقلاب کے رہبر امام خمینی رح ایک ایسے دینی اور متقی عالم تھے کہ جو اللہ تعالی کے فرامین پر عملدرآمد کو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت اور انقلاب کی کامیابی کا ضامن قرار دیتے تھے۔ ایک ایسے زمانے میں کہ جب ہر جگہ دین سے دوری اور مادیت کی ترویج کی جاتی ہے ایران کے اسلامی انقلاب کی معنویت کی جانب توجہ اقوام کے لئے ایک پرکشش چیز ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر اسلامی ممالک کے بھی بہت سے لوگ اس انقلاب کے حامی ہیں۔ یہ لوگ ایسے جو دین کو مٹانے پرمبنی مغرب کی کوشش اور دنیوی لذات کی جانب رخ کئے جانے سے ناخوش ہیں۔ بنابریں ایران کا اسلامی انقلاب نے دین اور معنویت کی جانب بازگشت کے علمبردار کی حیثیت سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں پر ہی اثرات مرتب کئے ہیں۔
امام خمینی رح تاکید فرمایا کرتے تھے کہ اسلام صرف عبادات اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کا زیادہ تر حصہ معاشرے اور حکومت کا انتظام چلانے کے سلسلے میں افراد کے تعلقات کے بارے میں ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں صراحت کے ساتھ فرمایا کہ دعا اور زیارت اسلام کا ایک باب ہے۔ لیکن اسلام میں سیاست بھی ہے۔ اسلام میں ملک کا انتظام چلانے سے متعلق تعلیمات بھی ہیں۔ اسلام معنویات کا دین ہونے سے قبل سیاست کا دین ہے۔ "
اس طرح ایرانی عوام کے ووٹوں سے دین اور معنویات کی بنیاد پر اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل ہوئی۔ اور سرمائےکی بالادستی کی بنیاد پر استوار مغرب کے لبرل نظام (Liberal system) کے مقابلے میں قرار پایا۔ اور یہ چيز خصوصا اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام اور طاقت میں اضافے کے ساتھ مغرب کے لئے، کہ جو اپنی لبرل ڈیموکریسی کو بہترین حکومت نظام سمجھتا ہے، ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ "
دوراندیشی حضرت امام خمینی رح کی ایک اور نمایاں خصوصیت تھی۔ آپ ملکی اور غیر ملکی مسائل پر دوسروں سے زیادہ نظر رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے برسوں قبل آپ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا اور انقلابی اور مجاہد افراد کا تربیت اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی امام خمینی رح کی دوراندیشی اور بصیرت کی بدولت بارہا ایران خطرات سے محفوظ رہا۔ امام خمینی رح نے اپنے بعد آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو رہبر بنانے کے بارے اپنے قریبی افراد کو وصیت کی جس سے آپ کی دوراندیشی نشاندہی ہوتی ہے۔ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی رہبری کو ستائیس برس کا عرصہ گزرنے کے بعد آج اس بات کو سمجھا جاسکتا ہےکہ امام خمینی رح سیاست و دینداری خصوصا اسلامی انقلاب کی حفاظت کے میدان میں اپنے اس دانشمند اور ممتاز شاگرد کی صلاحیتوں سے کس قدر زیادہ آگاہ تھے۔ ایسا شاگرد کہ جو اپنے استاد کے اہداف سے دستبردار ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ اس شاگرد کا اپنے استاد کے بارے میں کہنا ہے کہ عصر حاضر کے مشہور و معروف رہنما یعنی امام خمینی رح ایک متقی دانشور، دانا پرہیزگار ، اہل خرد سیاستدان ، جدت پسند صاحب ایمان ، شجاع اور ہوشیار عارف ، معلم اخلاق ،ادیب اور شاعر تھے۔