Apr ۲۳, ۲۰۱۷ ۲۳:۵۱ Asia/Tehran
  • بعثت پیغمبر سے پہلے کا زمانہ (حصہ دوم)

تحریر : حسین اختر رضوی

عصرجاہلیت میں ملک عرب میں بت پرستی کا عام رواج تھا اور لوگ مختلف انداز میں اپنے بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں کعبہ مکمل بت خانہ میں تبدیل ہوچکا تھا جس میں تین سو ساٹھ سے زیادہ اقسام اور مختلف شکل و صورت کے بت رکھے ہوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا بت وہاں موجود نہ ہو ۔ حج کے زمانے میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے بت کے سامنے کھڑے ہوتے، اس کی پوجا کرتے اور اس کو اچھے ناموں سے  پکارتے تھے۔

ظہورِ اسلام سے قبل یہود و نصاریٰ بھی جو کہ اقلیت میں تھے، جزیرہ نمائے عرب میں آباد تھے ۔ یہودی اکثر شمال عرب کے گرد و نواح کے علاقوں، مثلاً یثرب، وادی القریٰ، تیما ، خیبر اور فدک میں رہا کرتے تھے، جب کہ عیسائی جنوب میں یمن اور نجران جیسی جگہوں پر بسے ہوئے تھے ۔ انہیں میں چند لوگ ایسے  بھی تھے جو وحدانیت کے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کا پیروکار سمجھتے تھے، مؤرخین نے ان لوگوں کو حنفاء کے نام سے یاد  کیا ہے ۔

جب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر وحی نازل ہوئی، اس وقت عرب میں موجود مذہب کی جو حالت و کیفیت تھی اسے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اس طرح  بیان فرمایا ہے: ”اس زمانے میں لوگ مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے، ان کے افکار ایک دوسرے کے مخالف اور طور طریقے مختلف تھے ۔ بعض لوگ خدا کو مخلوق سے مشابہ کرتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ خدا کے بھی ہاتھ اور پیر ہیں، وہ بھی عام انسانوں کی طرح  زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے بھی بیوی و بچے ہیں۔ وہ خدا کے نام میں تصرف بھی کرتے ۔ اپنے بتوں کو خدا کے مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے ۔ مثلاً لات کو اللہ، عزیٰ کو عزیز اور منات کو منان کے ناموں سے یاد کرتے تھے۔“

بعض لوگ خدا کے علاوہ  دوسری اشیاء کو بھی  پوجتے تھے، ان میں بعض دہریئے تھے اور صرف فطرت، حرکات فلکیہ اور گردش زمان ہی کو خود پر موثر سمجھتے تھے ۔ پروردگار عالم  نے  پیغمبر اسلام  کے ذریعے انہیں گمراہی سے نجات دلائی اور آپ کے وجود کی برکت سے انہیں جہالت کے اندھیرے سے باہر نکالا ۔

جب ہم بت پرستوں کے گوناگوں عقائد کا مطالعہ کرتے اور ان کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں اپنے بتوں سے ایسی زبردست عقیدت تھی کہ وہ ان کے خلاف ذرہ برابر بھی توہین برداشت نہیں کرسکتے تھے، اسی لئے وہ ہمیشہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے  پاس جاتے اور ان  سے  پیغمبر کی شکایت کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور ہمارے دین و مذہب میں برائیاں نکالتے رہتے  ہیں ۔

  وہ لوگ وجود خدائے مطلق اور پروردگار کے معتقد و قائل تو تھے اور اللہ کے نام سے اسے یاد کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی وہ بتوں کو تقدس و پاکیزگی کا مظہر اور انہیں قابل پرستش سمجھتے تھے ، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بت ان کے معبود تو ہیں مگر ان کے خالق نہیں چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے گفتگو فرماتے تو یہ ثابت نہیں کرتے تھے کہ خداوند عالم ان کا خالق ہے  بلکہ ثبوت و دلائل کے ساتھ یہ فرماتے تھے کہ خدائے مطلق واحد ہے اور ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی حیثیت و حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔

ٹیگس