امام محمد تقی علیہ السلام کے چند اقوال
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام بعض روایات کی بنا پر ۱۰ رجب المرجب کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا مشہور لقب ’’جواد‘‘ ہے۔
قالَ الإمام الجواد عليهالسلام : نِعْمَةٌ لاتُشْكَرُ كَسِيَّئَةٍ لاتُغْفَرُ.
وہ نعمت جس کا شکرنہ ادا کیا جائے اُس گناہ کی طرح ہے جسے بخشا نہ گیا ہو۔
(بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۶۴)
قالَ الإمام الجواد عليه السلام: مَنِ اسْتَحْسَنَ قَبيحاً كانَ شَريكاً فيهِ.
جس نے کسی برائی کی تائید کی (اور اس پر راضی رہا) تو وہ اس (کے گناہ) میں بھی شریک ہے۔
(بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۲)
قالَ الإمام الجواد عليهالسلام: لَوْ سَكَتَ الْجاهِلُ مَا اخْتَلَفَ النّاسُ.
جاہل اگر خاموش رہے تو لوگوں میں کبھی اختلاف نہ ہو۔
(بحارالانوار، ج ۷۵، ص۸۱)
قالَ الإمام الجواد عليه السلام:مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَي الْقَبْرِ وَقَرَءَ ’’إنّا أنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘ سَبْعَ مَرّات، أمِنَ مِنَ الْفَزَعِ الاْكْبَرِ.
جو شخص اپنے مومن بھائی کی قبر پر حاضر ہو اور رو بقبلہ بیٹھے اور اپنے ہاتھ کو اسکی قبر پر رکھ کر سورۂ ’’انّا انزلناہ‘‘ کی سات مرتبہ تلاوت کرے تو وہ میدان حشر کی سختیوں سے امان میں رہے گا۔
(اختيار معرفة الرّجال، ص 564، ح 1066)
قالَ الإمام الجواد عليه السلام : التَّوْبَةُ عَلي أرْبَع دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ، وَ عَزْمٌ أنْ لايَعُودَ.
توبہ قبول ہونے کی چار شرطیں ہیں:دل میں احساس ندامت، زبان سے استغفار، گناہ کی تلافی (خدا یا بندے کا اگر کوئی حق ضائع کیا ہے تو اسکو ادا کرے) اور دوبارہ نہ دھرانے کا عزم۔
(ارشاد القلوب ديلمي، ص 160(
قالَ الإمام الجواد عليه السلام: مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِي بِطُوسَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّر.
جو شخص سرزمین طوس پر میرے پدر کی زیارت کرتا ہے، خداوندعالم اسکے ماضی و مستقبل کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
(وسائلالشیعه، ج۱۴، ص۵۵۰)