حضرت کمیلؓ کو خاص نصیحتیں
قال كُمَيْل بن زياد: أخذ بيدي أميرالمؤمنين علي بن أبي طالب(عليه السلام)، فأخرجني إلى الجبّان، فلمّا أصحر تنفّس الصّعَدَاء، ثمّ قال:
يَا كُمَيْل بْن زِيَاد، إِنَّ هذهِ الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ، فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا، فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ:
النَّاسُ ثَلاَثَةٌ: فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ، وَمُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاة، وَهَمَجٌ رَعَاعٌ، أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِق، يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيح، لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ، وَلَمْ يَلْجَؤُوا إِلَى رُكْن وَثِيق.
يَا كُمَيْلُ، الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وَأَنْتَ تَحْرُسُ المَالَ، وَالْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَالْعِلْمُ يَزْكُو عَلَى الاِْنْفَاقِ، وَصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِهِ.
يَا كُمَيْل بْن زِيَاد، مَعْرِفَةُ الَعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِهِ، بِهِ يَكْسِبُ الاِْنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِهِ، وَجَمِيلَ الاُْحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَالْعِلْمُ حَاكِمٌ، وَالْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْهِ.
يَا كُمَيْل ، هَلَكَ خُزَّانُ الاَْمْوَالِ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَالْعَُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ: أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ،و أَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ. هَا إِنَّ هاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً (وَأَشَارَ إِلى صَدره) لَوْ أَصَبْتُ لَهُ حَمَلَةً! بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُون عَلَيْهِ، مُسْتَعْمِلاً آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا، وَمُسْتَظْهِراً بِنِعَمَ اللهِ عَلَى عِبادِهِ، وَبِحُجَجِهِ عَلَى أَوْلِيَائِهِ، أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ، لاَ بَصِيرَةَ لَهُ فِي أَحْنَائِهِ، يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِهِ لاَِوَّلِ عَارِض مِنْ شُبْهَة. أَلاَ لاَ ذَا وَلاَ ذَاكَ! أَوْ مَنْهُوماً بِالَّلذَّةِ، سَلِسَ الْقِيَادِ للشَّهْوَةِ، أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ وَالاِْدِّخَارِ، لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْء، أَقْرَبُ شَيْء شَبَهاً بِهِمَا الاَْنَعَامُ السَّائِمَةُ! كَذلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيهِ.
اللَّهُمَّ بَلَى! لاَ تَخْلُو الاَْرْضُ مِنْ قَائِم لله بِحُجَّة، إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً، أوْ خَائِفاً مَغْمُوراً، لِئَلاَّ تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَبَيِّنَاتُهُ.
وَكَمْ ذَا وَأَيْنَ أُولئِكَ؟ أُولئِكَ ـ وَاللَّهِ ـ الاَْقَلُّونَ عَدَداً، وَالاَْعْظَمُونَ عند اللہ قَدْراً، يَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهُ وَبَيِّنَاتِهِ، حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ، وَيَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ، هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ، وَبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ، وَاسْتَلاَنُوا مَا اسْتَوْعَرَهُ الْمُتْرَفُونَ، وَأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْهُ الْجَاهِلُونَ، وَصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَان أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْـمَحَلِّ الاَْعْلَىٰ، أُولئِكَ خُلَفَاءُ اللهِ فِي أَرْضِهِ، وَالدُّعَاةُ إِلَى دِينِهِ، آهِ آهِ شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ! انْصِرِفْ (یَاکُمیلُ) إذَا شِئْتَ.
ترجمہ
کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ:
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبر ستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ بھری ۔ پھر فرمایا:
اے کمیل! یہ دل اسرار و حکمت کے ظروف ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ حفاظت کرنے والا ہو ۔ لہٰذا میں تمہیں بتاؤں تم جو اسے یاد رکھنا۔
دیکھو! تین قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہولیتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مڑ جاتا ہے نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیا کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔
اے کمیل! یاد رکھو,کہ علم مال سے بہتر ہے (کیونکہ)علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اورمال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہوجاتے ہیں ۔
اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے .یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم ۔
اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں، بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں .مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں (اس کے بعد حضرت نے اپنے سینہ اقدس کی طر ف اشارہ کیا اور فرمایا) دیکھو!یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے کاش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے، ہاں ملا، کوئی تو یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جو دنیا کے لیے دین کو آلۂ کار بنا نے والا ہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے یا جو ارباب حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے، بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں .اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہوجاتا ہے
ہاں! مگر زمین ایسے فرد خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں، اور اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کے لحاظ سے بہت بلند .خدا وند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے .یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کردیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انہیں بودیں .علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے .وہ یقین و اعتماد کی روح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا، اپنے لیے سہل و آسان سمجھ لیا ہے اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں .وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیا میں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملائی اعلیٰ سے وابستہ ہیں یہی لوگ تو زمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں ۔ ہائے ان کی دید کے لیے میرے شوق کی فراوانی (پھر حضرت نے کمیل سے فرمایا)اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا )اب جس وقت چاہو واپس جاؤ۔
کمیل ابن زیاد نخعی رحمتہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیرالمومنین کے خواص اصحاب میں سے تھے، علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زہد و ورع میں امتیاز خاص کے حامل تھے ۔ حضرت کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیئت کے عامل رہے 83 ہجری میں 90 برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے۔