بھروسہ مگر کام کے ساتھ!
نکمہ بن کر انسان کو توکل کرنے کے لئے نہیں کہا گیا، بلکہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خدا پر بھروسہ اور توکل انسان کو صحیح نتیجہ دیتا ہے
پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں جس وقت توکل اور خدا پر بھروسے کی بات مومنین کے درمیان کی گئی تو کچھ لوگ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اپنے گھروں میں جا بیٹھے۔
پیغمبر اسلام (ص) کو جب پتہ چلا تو آپ ناراضگی کے عالم میں ان لوگوں کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ خدا پر توکل کا مطلب یہ نہیں کہ کام نہ کرو،جاؤ کام کرو بھر خدا پر توکل اور بھروسہ کرو!
پیغمبر اسلام (ص) سے کسی نے آ کر یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! أعقِلُھا و أتوَکّل أو أطلِقُھا أتوکل؛یعنی میں اپنے اونٹ کو باندھ کر خدا پر بھروسہ کروں، یا اسے کھلا چھوڑ کر ہی خدا پر اعتماد اور بھروسہ کروں؟!
پیغمبر اسلام نے فرمایا:أعقِلھا و تَوَکَّل؛یعنی پہلے اپنے اونٹ کو باندھو پھر خدا پر بھروسہ کرو!
انسان کے لئے توکل اور بھروسہ کرتے وقت منزل امتحان یہی ہے کہ وہ خدا کے فراہم کردہ مادی ذرائع اور اسباب کو استعمال کرے، کام کرے مگر ان اسباب پر اعتماد نہ کرتے ہوئے خدا پر بھروسہ کرے اور اس سے لو لگائے۔
نکمہ بن کر انسان کو توکل کرنے کے لئے نہیں کہا گیا، بلکہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خدا پر بھروسہ اور توکل انسان کو صحیح نتیجہ دیتا ہے اور وہ بھی اُس وقت کہ جب وہ اپنے کام، اپنے کاروبار، اپنی ملازمت یا اپنے مادی وسائل پر تکیہ نہیں کرتا،بلکہ ان کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پالنے والے پر بھروسہ کرے!