عالم دین کے 16 حقوق امیرالمؤمنین کی زبانی
حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
عالم دین کے تم پر چند حقوق ہیں:
تم اس سے (فضول)سوال مت کرو،
کسی کو جواب دینے میں اس پر پہل مت کرو،
اگر وہ اعراض کرے تو اصرار مت کرو،
جب وہ تھک جائے تو اس کے دامن سے مت لپٹو،
اپنے ہاتھ سے اس کی جانب اشارہ نہ کرو،
اپنی آنکھ سے اس کی طرف اشارہ مت کرو،
اس کی محفل میں سرگوشی مت کرو،
اس کے عیوب تلاش نہ کرتے پھرو،
اس سے یہ مت کہو کہ فلاں شخص نے تمہاری مخالفت میں یہ کہا ہے،
اس کے راز فاش نہ کرو،
اس کے سامنے کسی کی غیبت مت کرو،
اس کے سامنے اور پیٹھ پیچھے اس کی حفاظت کرو،
سب کو سلام کرو اور بالخصوص عالم کو سلام کرو،
اس کے سامنے بیٹھو.
اگر اسے کوئی ضرورت پیش آئے تو دوسروں سے پہلے تم خدمت کے لئے اقدام کرو.
اس کی طویل گفتگو سے پریشان مت ہو .
چونکہ عالم دین کی مثال کجھور کے درخت جیسی ہے (جو دیر سے پھل دیتا ہے) لہٰذا اس درخت سے کوئی منفعت حاصل کرنے تک کا تم پر لازم ہے کہ انتظار کرو۔
عالم کی قدر و منزلت ایک روزہ دار نمازی مجاہد کی جیسی ہے کہ جب عالم کا انتقال ہوتا ہے تو اسلام میں ایک شگاف پڑ جاتا ہے، ایسا شگاف کہ جسے تا قیامت کوئی شی پُر نہیں کر سکتی، نیز علم کے متلاشی کے جنازہ میں آسمان کے ستر ہزار فرشتے شرکت کرتے ہیں۔
الخصال، شیخ صدوق(رہ)، باب 16، حدیث1۔ صفحہ 261