غیبت سے کیسے بچا جائے؟!
غیبت یا دوسروں کی بدگوئی ایک بڑا گناہ ہے جس سے دین اسلام نے سختی سے دور رہنے کو کہا ہے۔
غیبت انسانی ایمان کے لئے ایک مہلک اور تباہ کن گناہ ہے جس سے پرہیز صاحبان دین و ایمان کے لئے بے حد ضروری ہے۔بالخصوص آج کل کے دور میں کہ جہاں دوسروں کے ’’حقیقی یا جھوٹے‘‘ عیب بڑی تیزی سے سامنے آ جاتے ہیں اور انسان نادانستہ طور پر ان پر یقین کر کے انکی تشہیر میں با آسانی ملوث ہو جاتا ہے۔
کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا اگر خیال رکھا جائے تو کافی حد تک ہم اپنے کو غیبت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں:
۱۔انسان دین کے بارے میں اپنی معلومات مین اضافہ کرے اور اپنے فرائض کو صحیح طریقے سے پہچانے۔واجبات اور محرمات سے آگاہ ہو۔کیوں کہ کبھی کبھی انسان گناہ یا اسکی عاقبت سے عدم آگاہی اور جہالت کے سبب، گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
۲۔وہ ا فراد جو دیگر لوگوں کی باتیں کرنے کے عادی ہیں،ان سے دور رہنے کی کوشش کرے۔بسا اوقات لوگ غیبت کے اس طرح عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر ان کی غیبت کے سلسلے کو روک دیا جائے تو ان کے پاس کوئی دوسری مفید بات کرنے کو ہوتی ہی نہیں۔ کوشش یہ کی جائے کہ جو افراد آپ کو مفید معلومات دے سکتے ہیں یا مجموعا اخلاق و کردار کے لحاظ سے آپ کے لئے مفید ہو سکتے ہیں،انکی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے ساتھ اپنا خالی وقت گزارا جائے۔
۳۔کسی کے بارے میں ایسے سوالات مت پوچھئے یا ایسی بات مت کیجئے جن میں آپ کو یہ خدشہ ہو کہ ان سے غیبت کا دروازہ کھل سکتا ہے اور آہستہ آہستہ بات کا رخ دوسروں کی بد گوئی کی طرف مڑ جائے گا۔
۴۔اپنی عادت بنا لیجئے کہ اگر آپ کسی کے ساتھ یا کسی بزم میں بیٹھے ہوئے ہیں تو حتیٰ الامکان وہاں غیر حاضر (تیسرے) شخص کے بارے میں کوئی بھی بات نہ کریں،حتیٰ اُس کی تعریف سے بھی گریز کریں!کیوں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی شخص کی تعریف اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے کرتے ہیں مگر وہ شخص اُس غیر حاضر شخص کے بارے میں منفی نظریہ رکھتا ہے اور اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔یہاں پر غیر حاضر شخص کے بارے میں آپ کی جانب سے کی جانے والی غیر ضروری تعریف غیبت کا درواز کھل جانے کا سبب بن جاتی ہے!
۵۔اگر کہیں غیبت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو متوجہ ہوتے ہی کوشش کریں کہ اس کو بند کر دیں اور بات کا رخ کہیں اور موڑ دیں۔
۶۔ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہیں کہ غیبت کس قدر بڑا گناہ ہے۔جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ قرآن کریم نے غیبت کو ’’مردار بھائی کا گوشت کھانے سے‘‘ تعبیر کیا ہے۔
۷۔یہ دھیان رکھیں کہ غیبت سے انسان اپنے برادر دینی حق کا حق پامال کرتا ہے۔اس لئے یہ گناہ اُس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک خود وہ شخص نہ معاف کر دے جسکی غیبت کی گئی ہو۔
۸۔خیال اس بات کا رکھیں کہ اچھا یا برا جو بھی کام ہم کرتے ہیں،اسکی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اور اسکے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہمیں خدائی عدالت میں حاضر ہونا ہے!
۹۔اگر آپ اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ دوسروں کو غیبت سے روک سکیں یا آپ کی بات میں اتنا وزن نہیں کہ لوگ آپ کی بات مان کر غیبت سے باز آجائیں،تو کم از کم یہ کام ضرور کریں کہ اگر کبھی نہ چاہتے ہوئے آپ کے کانوں میں کسی کی غیبت کی آواز پڑ جائے تو اس سے متاثر نہ ہوں اور اپنے ذہن میں موجود ’’غیبت ہونے والے شخص‘‘ کی اچھی تصویر کو مکدر نہ ہونے دیں۔
۱۰۔کل ملا کر دیگر افراد کے بارے میں کم بات کرنے کو اپنا شیوہ بنا لیں۔