کھانے پینے کے کلیدی اصول اور پر خوری کے نقصانات
دین اسلام انسان کو روحی و جسمی دونوں اعتبار سے منزل کمال تک پہونچانے کا خواہشمند ہے اور وہ اسی مقصد سے اُس نے انسانی روح و جسم کے لئے کچھ خطوط معین کئے ہیں۔ ایک طرف جہاں روح کو پروان چڑھانے کے لئے دین مبین اسلام نے بے شمار ہدایات انسان کو دی ہیں وہیں جسمی طور پر اسکی ارتقا کے لئے بھی اسکے سامنے کچھ رہنمائیاں رکھی ہیں۔
نقل ہوا ہے کہ ہارون عباسی کا ایک عیسائی طبیب تھا۔ ایک دن وہ علی بن حسین واقد سے بولا: تمہاری (دینی) کتاب (قرآن) میں طب کے بارے میں کچھ نہیں ہے جبکہ علم کے دو ہی رکن ہیں؛ علم ابدان اور علم ادیان۔ علی بن حسین واقد نے اُس کے جواب میں کہا کہ خدائے سبحان نے تمام تر طب کو قرآن کریم کی آدھی آیت میں سمیٹ دیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: «كُلُوا وَ اشْرَبُوا وَ لا تُسْرِفُوا»، اسکے علاوہ ہمارے نبی نے بھی پورے طب کا ایک جملے میں خلاصہ فرما دیا ہے، آپ فرماتے ہیں:المِعدةُ بیتُ كلِّ الداءٍ و الحَمِیّةُ رأسُ كُل دَواءٍ و اعطِ كُلِ بدنٍ ما عودته؛ یعنی معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور پرہیز سب سے اچھی دوا ہے...۔
یہ سن کر وہ طبیب بولا کہ تمہارے خدا اور رسول نے طب کے سلسلے میں جالینوس کے لئے کچھ باقی ہی نہیں چھوڑا!
شک نہیں کہ انسان کو لگنے والی اکثر و بیشتر جسمانی بیماریوں کا سبب خود اسکی خوراک اور غذا ہوتی ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کو ایک کلیدی نکتہ کی جانب متوجہ فرمایا ہے۔آپ فرماتے ہیں:انا نأکُلُ ولَانَشبَعُ؛ یعنی ہم کھاتے (ضرور) ہیں مگر (کبھی) پیٹ بھر کے نہیں۔ (بحارالانوار، ج 66، ص 424)
ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں: تمام دواؤں میں سب سے بڑھ کر کم خوری یا کم کھانا ہے۔ (المواعظ العددیّة، ص 213)
ایک حدیث شریف میں وارد ہوا ہے:
فى وَصِيَّتِهِ لاِبنِهِ الحَسَنِ عليه السلام يا بُنَىَّ أَلا اُعَلِّمُكَ أَربَعَ خِصالٍ تَستَغنى بِها عَنِ الطِّبِّ؟ فَقالَ: بَلى يا اَميرَ المُؤمِنينَ، قالَ: لاتَجلِس عَلَى الطَّعامِ إِلاّ وَأَنتَ جائِعٌ وَلا تَقُم عَنِ الطَّعامِ إِلاّ وَأَنتَ تَشتَهيهِ، وَجَوِّدِ المَضغَ، وَإِذا نُمتَ فَاعرِض نَفسَكَ عَلَى الخَلاءِ فَإِذَا استَعمَلتَ هذَا استَغنَيتَ عَنِ الطِّبِّ؛
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند حسن مجتبیٰ (ع) کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: میرے بیٹے! میں تمہیں چار باتوں کی تعلیم دیتا ہوں جن کا خیال رکھنے کی صورت میں تم طب اور علاج سے بے نیاز ہو جاؤ گے۔ نواسۂ رسول حسن نے فرمایا: جی یا امیر المومنین:اسکے بعد آپؑ فرماتے ہیں:
جب تک بھوک نہ لگ جائے دسترخوان پر مت بیٹھو۔ اور کھانے کی اشتہا ختم ہونے سے پہلے پہلے کھانے پینے سے ہاتھ روک لو، لقموں کو اچھی طرح چباؤ اور سونے سے پہلے رفع حاجت کے لئے ضرور جاؤ۔ اگر تم نے ان باتوں کا خیال رکھا تو تم طبیب سے بے نیاز رہوگے۔(خصال، ص 228)
اب آئیے درج ذیل سطروں میں اسلامی نقطۂ نظر سے پُر خوری اور پیٹ بھر کھانے پینے سے ہونے والے بعض نقصانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
۱۔ منھ کی بدبو
۲۔ چہرے کا رنگ کم ہونا اور اسکی بے رونقی
۳۔ دین کا فاسد ہونا
۴۔ خدا سے دوری
۵۔ گناہوں میں اضافہ
۶۔ احکام الٰہی کے بالمقابل سرکشی و طغیانی کی ہمت پیدا ہونا
۷۔ انواع و اقسام کی بیماریوں کا سامنا
۸۔ گردن کا موٹا ہو جانا
۹۔ جِلدی یا کھال کی بیماریاں
۱۰۔ موٹاپا
۱۱۔ خدا سے غفلت
۱۲۔ روز قیامت کی بھوک و پیاس
۱۳۔ نماز اور ذکر و دعا سے بیزاری
۱۴۔ سستی
۱۵۔ نماز میں بے توجہی اور حضورِ قلب کا نہ ہونا
۱۶۔ پیٹ درد
۱۷۔ جسم کی تباہی
۱۸۔ قساوت قلب یا سنگدلی
۱۹۔اسراف
۲۰۔ عیوب کا ظاہر ہونا
۲۱۔ نفس و روح کی تباہی
۲۲۔ نورِ معرفت و بصیرت کا گُل ہو جانا
۲۳۔ دل سیاہ ہو جانا
۲۴۔ برے اعمال اور گناہوں کی جانب رجحان میں اضافہ
۲۵۔ عقل اور سوچنے سمجھنے کی قوت کا کمزور پڑ جانا
۲۶۔ زندگی سے برکت کا اٹھ جانا
۲۷۔ بے خوابی میں مبتلا ہونا
۲۸۔ اشتہا کا کم ہو جانا
۲۹۔ ہضمِ غذا میں دشواری
۳۰۔ ذہن کا کند ہو جانا
۳۱۔ یادداشت کا کمزور ہو جانا
۳۲۔ بدن پر سنگینی اور سستی کا طاری ہونا
۳۳۔ نماز شب سے محرومی
۳۴۔ انسان پر شیطان کا غلبہ
۳۵۔ نیک امور، اکرام و احسان اور جوانمردی کی جانب رجحان کا فقدان
۳۶۔ آنسوؤں کا خشک ہو جانا
۳۷۔ غضبِ الٰہی کا باعث بننا
(ماخوذ از: کافی، بحار الانوار، وسائل الشیعہ، مسترک الوسائل)