شہادت فرزند رسول (ص) حضرت امام محمد تقی علیہ السلام/ زیارت + سوانح حیات
سحرعالمی نیٹ ورک کی جانب سے ہم اپنے تمام ناظرین ، سامعین اورقارئین کرام کی خدمت میں شہادت فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی مناسبت پر تسلیت پیش کرتے ہیں۔
نویں امام اور آسمان عصمت و طہارت کے گیارھویں درخشاں ستارے فرزند رسول (ص) حضرت امام محمد تقی علیہ السلام 220 ہجری قمری کو حکام وقت کے جور و ستم کے تحت شہید ہوگئے اور امامت کی سنگین ذمہ داری آپ کے فرزند حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے کندھوں پر آن پڑی۔
آپ کا اسم گرامی محمد، ابوجعفر کنیت، اور تقی علیہ السّلام وجوّاد علیہ السّلام دونوں مشہور لقب تھے- اسی لیے آپ امام محمد تقی علیہ السّلام کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں .چونکہ آپ سے پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کی کنیت ابو جعفر ہوچکی تھی اس لیے کتابوں میں آپ کو ابو جعفر ثانی اور دوسرے لقب کو سامنے رکھ کر حضرت جوّاد بھی کہا جاتا ہے .
آپ کے والد بزرگوار حضرت امام رضا علیہ السّلام تھے اور والدہ معظمہ کا نام جناب سبیکہ یا سکینہ علیہ السّلام تھا .
حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کو کمسنی ہی میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہوجانا پڑا .آپ کو بہت کم ہی اطمینان اورسکون کے لمحات میں باپ کی محبت ، شفقت اورتربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کا موقع مل سکا
آپ (ع)کی عمرمبارک صرف پانچ برس تھی جب حضرت امام رضا علیہ السّلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفرکرنے پرمجبور ہوئے تو پھرزندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمد تقی علیہ السّلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السّلام کی شھادت ہوگئی .
امام محمد تقی علیہ السّلام اخلاق واوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل، رسول اور آل رسول (ص) کا طرۂ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا . ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا. غربا کی پوشیدہ طور پر خبرگیری کرنا اوردوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا ، مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اورعلمی اورمذہبی پیاسوں کے لیے چشمہ فیض جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کے نمایاں پہلو تھے.
29ذی القعدہ 220ھ میں پچیس سال کی عمر میں معتصم نے آپ کو زہر سے شہید کردیا اور آپ اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) کے پاس کاظمین میں دفن ہوئے
جواد الأئمہ (ع) کی جد و جہد ۔ ویڈیو
آپؑ کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات سے چند ایک اقتباسات ملاحظہ فرمائیں!
فرزندِ رسول حضرت امام محمد تقی (ع) کی مختصر سوانح حیات
قالَ الإمام الجواد عليهالسلام : نِعْمَةٌ لاتُشْكَرُ كَسِيَّئَةٍ لاتُغْفَرُ.
وہ نعمت جس کا شکرنہ ادا کیا جائے اُس گناہ کی طرح ہے جسے بخشا نہ گیا ہو۔
(بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۶۴)
قالَ الإمام الجواد عليه السلام: مَنِ اسْتَحْسَنَ قَبيحاً كانَ شَريكاً فيهِ.
جس نے کسی برائی کی تائید کی (اور اس پر راضی رہا) تو وہ اس (کے گناہ) میں بھی شریک ہے۔
(بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۲)
قالَ الإمام الجواد عليهالسلام: لَوْ سَكَتَ الْجاهِلُ مَا اخْتَلَفَ النّاسُ.
جاہل اگر خاموش رہے تو لوگوں میں کبھی اختلاف نہ ہو۔
(بحارالانوار، ج ۷۵، ص۸۱)
قالَ الإمام الجواد عليه السلام:مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَي الْقَبْرِ وَقَرَءَ ’’إنّا أنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘ سَبْعَ مَرّات، أمِنَ مِنَ الْفَزَعِ الاْكْبَرِ.
جو شخص اپنے مومن بھائی کی قبر پر حاضر ہو اور رو بقبلہ بیٹھے اور اپنے ہاتھ کو اسکی قبر پر رکھ کر سورۂ ’’انّا انزلناہ‘‘ کی سات مرتبہ تلاوت کرے تو وہ میدان حشر کی سختیوں سے امان میں رہے گا۔
(اختيار معرفة الرّجال، ص 564، ح 1066)
قالَ الإمام الجواد عليه السلام : التَّوْبَةُ عَلي أرْبَع دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ، وَ عَزْمٌ أنْ لايَعُودَ.
توبہ قبول ہونے کی چار شرطیں ہیں:دل میں احساس ندامت، زبان سے استغفار، گناہ کی تلافی (خدا یا بندے کا اگر کوئی حق ضائع کیا ہے تو اسکو ادا کرے) اور دوبارہ نہ دھرانے کا عزم۔
(ارشاد القلوب ديلمي، ص 160(