یمن پر فضائی حملوں میں عام شہری مارے جا رہے ہیں: بان کی مون
Sep ۱۷, ۲۰۱۵ ۰۹:۱۰ Asia/Tehran
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ یمن کے بحران کو فوجی طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ بحران یمن کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے اور لڑائی میں شدت خصوصا فضائی حملوں عام شہری مارے جارہے ہیں۔بان کی مون نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستّرویں سیشن کے آغاز کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یمن کی صورتحال کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ میں یمن میں تمام متحارب فریقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فورا میرے نمائندے کی جانب سے پیش کئے جانے والے سیاسی حل پر آمادہ ہو جائیں اور قرارداد نمبر دو ہزار دو سو سولہ سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کریں۔
بان کی مون نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ستّرواں سیشن تشویش اور امید کے سائے میں منعقد کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تشویش کی وجہ بہت سے علاقوں میں لڑائیوں میں پیدا ہونے والی شدت ہے۔ جس کے باعث عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ امید اس لئے ہے کہ رواں مہینے کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کے بہت سے لیڈر اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ بحرانوں کے حل تک رسائی حاصل کریں اور سنہ دو ہزار تیس تک پائیدار ترقی کے لئے لائحہ عمل اور ایجنڈے کو حتمی شکل دیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے شام کے بارے میں کہا کہ میرا خصوصی نمائندہ اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا لیکن اس خوفناک صورتحال کو ختم کرنے کی ذمےداری متحارب فریقوں، شام کے ہمسایہ ممالک اور لڑائی کو ہوا دینے والے غیر ملکی عناصر پر عائد ہوتی ہے۔
بان کی مون کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا میں ایک سو ملین افراد کو مالی مدد کی شدید ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس کافی مالی وسائل موجود نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وحشیانہ جھڑپوں اور لڑائیوں کی وجہ سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے اقتصادی مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔
بان کی مون کا کہنا تھا کہ ساٹھ ملین افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر جا چکے ہیں اور یہ ایسی صورتحال ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ پیدا ہوئی ہے۔
بان کی مون نے کہا کہ میں تارکین وطن کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں مداخلت نہ کریں کیونکہ ان افراد کو اپنے ملکوں میں وحشتناک صورتحال کا سامنا ہے اور وہ دوسرے ممالک میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔