برطانیہ میں تاریخی ریفرنڈم
یورپی یونین میں برطانیہ کے باقی رہنے یا نہ رہنے کے سوال پر برطانوی شہری ایک اہم ریفرنڈم میں ووٹ ڈال رہے ہیں-
موصولہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریفرنڈم کے لئے جمعرات کی صبح سے ہی پولنگ شروع ہوگئی ہے جو برطانیہ کے مقامی وقت کے مطابق رات دس بجے تک جاری رہے گی، ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج جمعے کی صبح تک آنے شروع ہوجائیں گے -
ریفرنڈم میں شرکت کے لئے چھیالیس اعشاریہ پانچ ملین لوگوں نے اپنے ناموں کا اندراج کرایا تھا - ریفرنڈم میں شرکت کرنے والے برطانوی شہری، اس سوال کا جواب دے گا کہ کیا برطانیہ کو یورپی یونین کے ایک رکن کی حیثیت سے باقی رہنا چاہئے یا اس یونین سے نکل جائے ؟
یہ ایسی حالت میں ہے کہ رائے عامہ کے جائزوں میں کہا جارہا ہے کہ یورپی یونین میں برطانیہ کے باقی رہنے کے حامیوں اور مخالفین کی تعداد میں بہت کم فاصلہ ہے -
ہفتے اور اتوار کو گارڈین اور آئی سی ایم کے مشترکہ عوامی جائزے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ کے ترپن فیصد عوام یورپی یونین سے اپنے ملک کے الگ ہوجانے کے حق میں ہیں جبکہ سینتالیس فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین میں باقی رہنا چاہئے -
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ یورپی یونین میں برطانیہ کے باقی رہنے کے حق میں ووٹ دیں - انہوں نے اپنی تقریروں میں کہا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہوجانے کے، برطانیہ کے لئے سنگین اقتصادی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین میں جو اصلاحات ہوئی ہیں اس کے بعد اس یونین میں برطانیہ کی موجودگی اس کی زیادہ طاقت اور تحفظ کی ضامن ہوگی -
امریکا اور دیگر یورپی ملکوں نے بھی کہا ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین میں باقی رہنا چاہئے بصورت دیگر اس کو اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے -
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین میں باقی رہے لیکن اس کا فیصلہ کرنے کا حق برطانوی عوام کو حاصل ہے -
فرانس کے صدر فرانسوا اولینڈ نے بھی کہا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا فیصلہ ناقابل برگشت فیصلہ ہوگا - اور نتیجے میں برطانیہ کو یورپ کی مشترکہ منڈیوں تک رسائی میں مشکلات پیدا ہوں گی -
پولینڈ کی وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ اگر برطانیہ کے عوام نے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تو یورپی یونین کو مجبورا اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہوگی -
دوسری جانب یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہونے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے سے برطانیہ، یورپی یونین کی قید وشرط سے آزاد ہوجائے گا اور اپنی اقتصادی اور تجارتی پالیسیاں بنانے میں آسانی ہوگی -