Feb ۱۴, ۲۰۱۷ ۱۰:۰۴ Asia/Tehran
  • ویلنٹائن ڈے نہیں یوم حیا منائیں

آج ویلنٹائن ڈے کے بجائے یوم حیا منایا جا رہا ہے۔

ایک طبقہ سرخ پھولوں کا تبادلہ کرے گا تو وہیں پرایک بڑا طبقہ ’’یوم حیا ‘‘ کے عنوان سے  محبت کے نام پر ہونے والی فحاشی و عریانی کے خلاف حجاب ، شرم و حیا اور اسلامی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف تقریبات منعقد کرے گا ۔

پاکستان میں یوم حیا منانے والوں کی بڑی کامیابی ہائیکورٹ کے فیصلے سے بھی ملی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ نے کل سرکاری سطح پر ویلنٹائن ڈے منانے اور میڈیا پر اس کی تشہیر کرنے سے روک دیا ہے اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے منانے کی اجازت نہ دے ،عدالت نے اپنے حکم میں وزارت اطلاعات اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے حکام سے کہا ہے کہ میڈیا کو ایسے پروگرام کی کوریج سے بھی روکا جائے جبکہ کراچی میں اتوار کے روز ویلنٹائن ڈے منانے کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔

سینٹ ویلنٹائن ڈے ایک تصوراتی اور شک و شبہ میں گندھا ہوا کردار ہے۔ جو کہ عیسائیت کی تیسری صدی میں رومنوں کے عہد سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن دو مختلف ادوار میں دو علیحدہ شخص تھے اور یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ایک ہی شخص تھا۔ یوں رومی دور میں پادری تھا اور بعد ازاں تورنی کا بشپ مقرر ہوا تھا۔ اگرچہ برطانیہ کا کوئی چرچ بھی اس نام سے منسوب نہیں ہے۔ تاہم قدیم مصوری میں اسے ایک ایسے سینٹ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے کہ جس کے قدموں میں ایک مرگی زدہ بچہّ لیٹا ہوا ہے۔ ویلنٹائن کو مرگی کے مرض سے بچاؤ پر ولی بھی تصور کیا جاتا تھا۔ ویلنٹائن کے قتل کا اصل سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اصنام کی پوجا سے انکاری تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کا سینٹ ویلنٹائن سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ فروری کے ایام میں چونکہ موسم تبدیل ہو جاتا تھا۔ پرندے اورجانور موسم کی مستی سے متاثر ہوتے تھے۔ اس لئے 14 فروری کا دن رومی عقائد کے مطابق پیار و محبت اور رفاقتوں کا دن قرار پایا گیا تھا۔ غالباَ انہیں ایام میں سینٹ ویلنٹائن کو قتل کیا گیا تھا۔

اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ویلنٹائن کا دن کارپوریٹ بزنس سے وابسطہ افراد کی ایک کامیاب ذہنی اختراع ہے، یہ ایک ایسا کاروبار ہے، جس نے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ان ملکوں میں دھن سمیٹا ہے، جو ترقی پذیر ہیں۔

ویلنٹائن ڈے ایک ایسے معاشروں میں رہنے والوں کو خوش ہوا کا ایک جھونکا محسوس ہوتا ہے، جبکہ یہ خوش ہوا کا جھونکا نہیں، ایک وقتی خط ہوتا ہے، جو پانی کے بلبلے کی طرح نمو دار ہوتا ہے اور لمحے میں معدوم ہو جاتا ہے۔

مغرب کو ان کو منانے کی بات تو سمجھ آتی ہے کہ مغرب کی ترقی اور تہذیبی احساس اساطیرالاولین پر استوار ہے، لیکن اسلامی ممالک میں اس دن کو پذیرائی ملنا یقیناً اچھنمبے اور فکر کی بات ہے۔ اس لئے کہ ان ممالک کے پاس ایک آفاقی پیغام حیات ہے، ایک ٹھوس طرز زندگی ہے اور ایک ایسا نظام ہے کہ جس کی بنیاد ہی محبت و یگانت پر رکھی ہوئی ہے۔

 

ٹیگس