Apr ۱۲, ۲۰۱۸ ۱۵:۲۱ Asia/Tehran
  • شام پر فوجی کارروائی کی مخالفت

شامی عوام کے خلاف امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی براہ راست فوجی کارروائی کی دنیا بھر میں مخالفت کی جا رہی ہے۔

 سینیئر امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس شام میں امریکی فوجی مداخلت میں اضافے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ میں امریکی کردار کے تعین کا اختیار کانگریس کے پاس ہے اور اسے اپنے اختیار کو چھیننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ریاست یوٹا سے ری پبلکن سینیٹر مائک لی نے بھی کہا ہے کہ شام میں کسی بھی نئے فوجی اقدام سے پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس سے اجازت لینا ہو گی۔
مخالفت کی اس شکل کے علاوہ بھی امریکہ اور یورپ میں شام کے خلاف فوجی حملے کی بنیادی مخالفت کی جا رہی ہے۔
مشرق وسطی کے امور میں امریکہ کے سابق ایلچی جارج مچل نے کہا ہے کہ امریکی عوام  اور اراکین کانگریس کی اکثریت، افغانستان اور عراق کی دو جنگوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مشرق وسطی کی نئی جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے حق میں نہیں ہے۔

انہوں نے شام میں امریکہ اور روس کے درمیان جنگ کے امکان پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شام میں امریکی فوجی کارروائی نہ تو خطرات سے خالی ہوگی اور نہ ہی اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت موجود ہے۔
برطانیہ میں بھی جو ہر جنگ میں امریکہ کا اہم ترین اتحادی بن جاتا ہے، حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کوربن نے صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کے جنگ مخالف اتحاد نے الیکٹرانک دستخطی مہم شروع کر دی ہے تاکہ عوامی دباؤ کے ذریعے شام کے خلاف فوجی حملے میں اپنے ملک کی شمولیت کو روکا جا سکے۔
 برطانوی اخبار ٹائمز نے بھی بدھ کی اشاعت میں لکھا ہے کہ وزیراعظم تھریسا مئے نے ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن کو شام کے خلاف جنگ میں شرکت کے لیے مزید شواہد اور وقت کی ضرورت ہے۔
 دہشت گردوں اور ان کے مغربی حامیوں کی جانب سے شامی فوج پر دمشق کے نواحی علاقے دوما میں کیمیائی گیس کے استعمال کے بے بنیاد الزامات نے دنیا کو نئی جنگ کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔  

ٹیگس