شمالی اور جنوبی کوریا میں ترک مخاصمت کا سمجھوتہ
جنوبی کوریا کے صدر اور شمالی کوریا کے رہنما نے امن سمجھوتے پر دستخط کر کے جزیرہ نمائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل پاک کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے جمعے کے روز امن کا گھر کہلائے جانے والے سرحدی قصبے پان من جوم میں تاریخی ملاقات کے دوران جزیرہ نمائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے مکمل پاک کئے جانے کے سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔
اس سمجھوتے میں دونوں کوریاؤں کے سربراہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کو امن معاہدے میں تبدیل اور ایک دوسرے کے خلاف ہر قسم کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ ختم کرنے پر زور دیا ہے۔
اس تاریخی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں نے سن دو ہزار اٹھارہ کے اختتام تک جنگ کوریا کے خاتمے کا اعلان اور پائیدار امن کے قیام کا عزم ظاہر کیا ہے۔
فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ چین اور امریکہ کے ساتھ سہ فریقی یا چار فریقی مذاکرات شروع کرنے کی غرض سے بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے۔
دونوں کوریاؤں نے شمالی کوریا کے سرحدی شہر کائے سونگ میں مستقل رابطہ شاہراہ کے قیام پر بھی اتفاق کیا ہے تاکہ جنگ کے نتیجے میں بٹ جانے والے خاندانوں کے درمیان ملاقات کا سلسلہ آسان بنایا جاسکے۔
مون جائے ان اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ رواں سال اگست کے اختتام تک دونوں کوریاؤں میں منقسم خاندانوں کے درمیان ملاقاتوں کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
دونوں کوریاؤں کے درمیان تقسیم کے نتیجے میں ہزاروں کوریائی خاندان منقسم ہوکے رہ گئے ہیں اور ان کے درمیان ملاقات کا امکان فراہم نہیں ہو سکا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان نے کہا ہے کہ وہ رواں سال کے موسم خزاں میں شمالی کوریا کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دونوں کوریاؤں نے رواں سال اگست میں انڈونیشیا میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں سمیت، کھیلوں کے تمام بین الاقوانی مقابلوں میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
ستر سال سے جاری اختلافات کے سائے میں دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں کی یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب گذشتہ برس کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں بےپناہ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں اور علاقے میں امریکہ کی پے در پے مشترکہ فوجی مشقوں اور دوسری طرف شمالی کوریا کی جانب سے جاپان سمیت امریکی اتحادیوں کی سرحدوں کے قریب کیے جانے والے ایٹمی اور میزائل تجربات نے خطے میں بھرپور جنگ کے خدشات پیدا کر دیئے تھے۔دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں نے اپنی جمعے کی ملاقات میں جس امید کا اظہار کیا ہے اس سے دیرینہ تنازعے کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کے عزم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں کوریاؤں کے درمیان دوستی کے فروغ کا یہ عزم امریکہ جیسے ملکوں کو اچھا نہ لگے جو جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کو علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کے جواز کو مستحکم کرنے کا بہانہ سجھتے ہیں۔