ایرانیوں کی قابل فخر استقامتی تہذیب کا اعتراف
سابق امریکی نائب وزیر خارجہ اور اعلی ایٹمی مذاکرات کار ونڈی شرمین نے ایرانیوں کی استقامتی تہذیب کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی عوام اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں۔
فرانسیسی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے ونڈی شرمین کا کہنا تھا کہ ایران استقامتی تہذیب کا مالک ہے اور اپنی تہذیب پر فخر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایران اب ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرے گا۔
ونڈی شرمین نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کے امریکی مشیر جان بولٹن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ایران کے خلاف سخت اور شدید پابندیوں کا نتیجہ تہران میں حکومت کی تبدیلی کا باعث بنے گا حالانکہ ایسا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران مخالف پالیسیوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیونکہ پابندیاں ایرانی عوام کو مزید متحد کر دیں گی۔
سابق اعلی امریکی مذاکرات کار نے ایٹمی معاہدے سے امریکی علیحدگی کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی اور امریکی صدر نیز ان کی سیکورٹی ٹیم کے اس موقف کے نتائج کی بابت سخت خبردار کیا۔
ونڈی شرمین نے ایسے وقت میں ایرانیوں کی قابل فخر استقامتی تہذیب کا اعتراف کیا ہے جب پچھلے چالیس برس کے دوران آنے والی تمام امریکی حکومتیں ایران کی ترقی و پیشرفت کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکاتی آئی ہیں اور پابندیاں اس مقصد کے حصول کا ایک حربہ رہا ہے۔
دوسری جانب سابق امریکی صدر براک اوباما کے معاون مائیکل میکفال نے واشنگٹن پوسٹ میں چھپے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدکی اور ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے لیے وزیر خارجہ مائک پومپیؤ کی جانب سے عائد کی جانے والی بارہ شرائط نے عالمی برادری کے درمیان ایران کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے جبکہ امریکہ اس معاملے میں تنہائی کا شکار ہے۔