ایٹمی معاہدے کو لے کر امریکہ توہمات کا شکار، ایران کا موقف آشکار
امریکی وزیر خارجہ نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے واشنگٹن کی غیر قانونی علیحدگی کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر ایران سے ایٹمی معاہدے سے متعلق تمام وعدوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے پیر کی رات ایٹمی معاہدے اور ایران سے متعلق امریکہ کی ایک بار پھر زیادہ خواہی کا اظہار کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ تہران کو پہلے تمام ایٹمی وعدوں پر عمل کرنا ہو گا پھر امریکہ بھی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹ آئے گا۔
چند گھنٹے قبل وہائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے دعوی کیا تھا کہ ایران اگر تمام ایٹمی وعدوں پر عمل کرتا ہے تو امریکہ بھی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹ آئے گا۔
دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ نے پیر کی رات اپنے ایک ٹوئٹ میں بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ اور غیر قانونی علیحدگی کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ کی بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپسی اور معاہدے کے مطابق اسکے وعدوں کی پابندی پر زور دیا۔
ڈاکٹر ظریف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ امریکہ ہی تھا جو خود سرانہ طور پر ایٹمی معاہدے سے باہر نکلا اور اس نے بین الاقوامی قوانین اور ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی اس لئی اسے چاہئے کہ جس طرح سے وہ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہوا ہے اس معاہدے میں واپس لوٹے اور ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں اور فرائض پر عمل کرے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست خوردہ پالیسیوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں یا پھر ٹرمپ کی شکست خوردہ پالیسیوں سے ہٹ اپنے ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ امریکی حکومت کو سابق صدر ٹرمپ کی شکست خوردہ پالیسیوں پر عمل کر کے اور زیادہ شکست و ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے اور پابندیوں کے حوالے سے فرما چکے ہیں کہ امریکہ اور یورپ والوں کو شرطیں عائد کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ہی ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ایران ہے جس کو اس بارے میں شرطیں رکھنے کا حق حاصل ہے، کیونکہ ایران از اول ایٹمی معاہدے کی پابندی کرتا رہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی واضح کر چکے ہیں کہ ایران اپنے ایٹمی وعدوں پر مکمل طور سے اس وقت واپس آئے گا جب امریکہ کی جانب سے تمام پابندیاں، زبانی اور تحریری نہیں بلکہ عملی طور پر ختم ہو جائیں گی اور ایران کو اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ یہ تمام پابندیاں ختم ہو چکی ہیں۔
خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہونے اور ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی کا اعلان کر دیا تھا۔
امریکہ کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد ایران نے ایٹمی معاہدے کے دیگر شریک ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عمل کرنے کی شرط پر اس ایٹمی معاہدے میں کو باقی رکھنے کا اعلان کیا اور یورپی ممالک نے اس بین الاقوامی معاہدے کی حفاظت اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کا اعلان بھی کیا مگر انہوں نے اپنے کسی بھی وعدے پر کوئی عمل نہیں کیا۔
ایسی صورت حال میں ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل نے آٹھ مئی دو ہزار انیس کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی اور یکطرفہ علیحدگی کی سالانہ تاریخ کے موقع پر اعلان کیا کہ تہران، ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے مطابق اپنے ایٹمی معاہدوں سے بتدریج پیچھے ہٹنے کا اقدام عمل میں لائے گا۔
ایران کی حکومت نے پانچ جنوری دو ہزار بیس کو ایک بیان میں ایٹمی معاہدے سے اپنے رضاکارانہ وعدوں سے آخری قدم کے طور پر پیچھے ہٹنے کا بھی اعلان کر دیا۔
قابل ذکر ہے کہ ایٹمی معاہدے کی چھبیسیوں اور چھتیسویں شق میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے مقابل فریق کی جانب سے اس بین الاقوامی معاہدے کے مطابق اپنے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں ایران کو بھی اس بات کا حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کرنے سے پسپائی اختیار کرلے۔