بچوں کے لازمی ویکسینیشن کے ففدان پر عالمی اداروں کو تشویش
عالمی اداروں نے دنیا بھر میں کروڑ بچوں کی لازمی ویکسینیشن نہ ہونے پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
بچوں کے عالمی ادارے یونیسف اور عالمی ادراۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جمعے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال تقریبا ڈھائی کروڑ بچوں کو ڈیفتھیریا، کالی کھانسی اور تشنج جیسی مروجہ بیماریوں کے ٹیکے نہیں لگائے جا سکے۔ مذکورہ اداروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نشاندھی ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکہ لگانے کا عمل سست روی کا شکار ہے اور سن دوہزار انیس سے اس میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کا پھیلاؤ صحت کی منظم خدمات کی فراہمی میں تعطل اور ویکسینوں کی افادیت کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔
یونیسف کی سی ای او کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کی صحت کے حوالے سے ایک خطرہ ہے اور اس کے نتائج آنے والے برسوں میں سامنے آئیں گے۔ لندن انسٹی ٹیوف فار چلڈرن ہیلتھ کی پروفیسر ہیلن فورڈ کا بھی کہنا ہے کہ یہ بہت ہی افسوسناک امر ہے کیونکہ کورونا کے پھیلاؤ سے دوسال پہلے عالمی سطح پر بچوں کی ویکسینیشن کے حوالے سے غیر معمولی پیشرفت کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے انتہائی بھیانک سماجی اور اقتصادی نتائج برآمد ہوں گے۔
دوسری جانب براعظم افریقہ میں ایک خطرناک بیماری کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جس میں اب تک تیرہ افراد مبتلا ہو چکے ہیں جبکہ تنزانیا میں تین لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے۔ قحط، پینے کا صاف پانی نہ ہونے اور صحت کی بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں نئی وائرل بیماریوں کے پھیلاؤ کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ عالمی ادارے صرف رپورٹوں کی تیاری اور ریڈ الرٹ جاری کرنے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں، حتی کووڈ ویکسین کی فراہمی میں بھی براعظم افریقہ کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہیں۔
حکومت تنزانیا کے سینیئر ہیلتھ آفیسر ایفالو سیچالو نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں، بخار، سردرد، تھکاوٹ اور ناک سے خون آنے کو اس خطرناک بیماری کی علامات بتایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مریضوں میں، خون آنے کے حوالے سے جانے پہچانے وائرسوں جیسے ایبولا، ماربورگ، حتی کوووڈ کے ٹیسٹ بھی منفی آئے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ بیماری پھل کھانے والی چمگادڑوں کے ذریعے انسان میں سرایت کرتی ہے اور وائرس میں مبتلا شخض کے پیسنے اور آلودہ سطحوں کو براہ راست مس کرنے سے دیگر انسانوں کو لگ جاتی ہے۔ مذکورہ ادارے کے مطابق اگر اس بیماری کی بطور ماربورگ تصدیق ہوجاتی ہے تو دوسری بار ایسا ہوگا جب اس بیماری نے مغربی افریقہ میں سر اٹھایا ہے۔ گزشتہ سال حکومت گنی نے اس بیماری کے متعدد معاملات سامنے آنے کی تصدیق کی تھی۔