Jun ۰۶, ۲۰۱۶ ۰۰:۱۳ Asia/Tehran
  • انقلاب کے راستے پر گامزن رہنا پیشرفت اور اہداف کے حصول کی تنہا را

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعے کی صبح امام خمینی رح کے مزار پر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے عظیم الشان اور پرشکوہ اجتماع سے گفتگو کرتے ہوئے امام خمینی کی شخصیت کو ایک مومن، خداوند متعال کی مطیع اور انقلابی شخصیت قرار دیا اور عوام اور اسلامی نظام کے اہداف کے حصول اور ترقی و پیشرفت کے لئے ملت کے انقلابی رہبر کے راستے پر گامزن رہنے پر تاکید کرتے ہوئے انقلابی ہونے کے پانچ اہم معیارات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی مذاکرات سے حاصل ہونے والے اس تجربے سے استفادہ کرت

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام خمینی رح کی ستائیسویں برسی کے اجتماع میں گفتگو کرتے ہوئے مومن، خداوند متعال کی مطیع اور انقلابی ہونے کو امام خمینی کی جامع صفت قرار دیا اور فرمایا کہ امام بزرگوار، اللہ پر ایمان، عوام پر ایمان، ہدف پر ایمان اور اس راستے پر مکمل ایمان رکھنے والے تھے جو اس ہدف تک پہنچاتا ہے۔

آپ نے امام راحل کی صفت یعنی خداوند متعال کے مطیع کامل ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امام رح اللہ تعالی کے بندہ صالح، اہل خضوع و خشوع اور اہل ذکر و مناجات تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رح کی تیسری اہم صفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی انقلابی رہبر تھے اور یہی صفت آپ سے بڑی طاقتوں کی ناراضگی کا بنیادی سبب تھی۔

حضرت آیت اللہ خامنہ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ بڑی طاقتیں ملت ایران کی انقلابی باتوں اور انقلابی ماہیت سے سخت ہراساں رہتی ہیں، فرمایا کہ برسوں سے مختلف بہانوں من جملہ ایٹمی مسئلے اور انسانی حقوق جیسے موضوعات کا بہانہ بنا کر ملت ایران پر شدید دباؤ ڈالے جانے کی وجہ ملت ایران اور اسلامی نظام کی انقلابی ماہیت کی خصوصیات ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بڑی طاقتوں کے کنٹرول سے ایران کے باہر نکل جانے اور اسلامی نظام کو دوسروں قوموں کے لئے مثالی نمونہ بن جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اساسی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے انقلابی امام نے ملک کو مختلف دلدلوں، بشمول اغیار پر انحصار کی دلدل، سیاسی بدعنوانیوں، اخلاقی بدعنوانیوں، بین الاقوامی تذلیل و تحقیر، علمی، سائنسی اور اقتصادی پسماندگی اور سروں پر مسلط امریکا و برطانیہ کے چنگل سے نجات دلائی اور ملک و قوم کی سمت و زاویے میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کر دی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ امام خمینی رح نے ملک کی حرکت کا رخ اعلی اہداف یعنی دین خدا کی بالادستی کی طرف لے جانے والے راستے کی طرف موڑ دیا، مزید فرمایا کہ دین خدا کی بالادستی، حقیقی معاشرتی انصاف کے قیام، غربت و جہل کی بیخ کنی، سماجی مشکلات اور استحصال کی بیخ کنی، اسلامی اقدار کے نظام کی برقراری، جسمانی و اخلاقی و روحانی صحت و سلامتی کی فراہمی، ملک کی علمی پیشرفت، قومی تشخص و وقار کی فراہمی اور بین الاقوامی مقام کا تحفظ اور ملکی توانائیوں کو متحرک کرنے سے عبارت ہے۔

آپ نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی برکت سے ملک کو انہیں اہداف کی جانب گامزن کر دیا، فرمایا کہ گرچہ ان اہداف کا حصول وقت طلب اور جدوجہد کا متقاضی ہے، لیکن یہ تمام چیزیں قابل اجرا ہیں اور ان کے حصول کی واحد شرط یہ ہے کہ انقلابی رہنے اور انقلاب کے راستے پر گامزن رہا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی پیش قدمی کے عمل کو درپیش ممکنہ مشکلات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رح کی رحلت کے بعد ہم نے جب بھی انقلابی عمل انجام دیا ہمیں کامیابی نصیب ہوئی اور جب بھی ہم نے انقلابیت اور جہادی اقدامات سے غفلت برتی ہمیں ناکامی اور پسماندگی کا منہ دیکھنا پڑا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس راستے پر انقلابی انداز میں قدم بڑھائے جا سکتے ہیں کہ ایسی صورت میں پیشرفت یقینی ہے، لیکن پیش قدمی کے دوسرے طریقے بھی ہیں تاہم اس صورت میں ہمارا انجام عبرتناک ہوگا اور ملت ایران اور اسلام شدید نقصانات اٹھائے گی۔
آپ نے اسلامی انقلاب کو، ملک و ملت کا ممتاز اور بے مثال سرمایہ قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے بہت عظیم قربانیاں دی گئی ہیں، لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں بے شمار فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای  نے 37 سالوں کے دوران اسلامی انقلاب کی بنیادوں کے مزید مستحکم ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ملت ایران کے حالات ماضی سے زیادہ روشن، اور سازگار ہو چکے ہیں اور اب بہت سارے اخراجات سے اجتناب کیا جاسکتا ہے۔

آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ انقلاب عوام کے عزم و ارادے اور جذبہ ایمانی کی وجہ سے وجود میں آیا اور اسی عوامی قوت اور جذبے کی بنیادوں پر قائم و دائم ہے اور اس کی جڑیں پھیلتی جا رہی ہیں، اور اس نے فوجی دھمکیوں اور پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا،  لیکن مفلوج نہیں ہوا بلکہ شجاعانہ اور سربلند انداز میں اپنے راستے پر گامزن ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ انقلابی ہونا صرف اس تحریک کے زمانے یا امام خمینی رح کے زمانے سے مختص نہیں ہے بلکہ انقلاب اور انقلابیت تمام ادوار کے لئے ہے، اور انقلاب ایک بہتا ہوا دریا ہے اور جو لوگ بھی انقلاب کے معیاروں کے مطابق چلتے ہیں وہ انقلابی ہیں حتی وہ نوجوان بھی جنھوں نے امام خمینی رح کو دیکھا تک نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرز تفکر کو کہ جس کی وجہ سے انقلاب پسندی کو انتہا پسندی قرار دیا جاتا ہے اور عوام کو انتہا پسند اور اعتدال پسند جیسے دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کا دوغلا پن کہ جو اغیار کی سوغات اور دشمنوں کا موقف ہے اسے ملک کے سیاسی کلچر میں ہرگز داخل نہیں ہونا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلابی ہونے اور انقلابیت سے متعلق ایک اور غلط فکر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے راستے پر چلنے والے اور انقلاب کے معیاروں کے مطابق عمل کرنے والے تمام افراد کے ایک ہی معیار کی توقع رکھنا غلط ہے، بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ انقلابی گری کے اوصاف دکھائی دیئے جانے چاہئیں۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص انقلاب کے مفاہیم اور انقلابی اقدامات کی نسبت بہتر انداز میں کام کرے لیکن اسکے مقابلے میں کوئی دوسرا شخص اس شدت و سنجیدگی کے ساتھ کام انجام نہ دے سکے لیکن وہ دونوں انقلابی ہی کہلائیں گے، اور اس شخص پر غیر انقلابی یا انقلاب مخالف ہونے کے الزامات نہیں لگائے جا سکتے جو انقلاب کے معیاروں کے راستے پر تو ہے لیکن بہت بہتر رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد اسلامی انقلاب کے بنیادی اقدار کی پابندی، اعلی اہداف کو دائمی طور پر مد نظر رکھنا اور ان کے حصول کے لئے اپنے حوصلے بلند رکھنا، ملک کی ہمہ جہتی خود مختاری کا پابند رہنا، دشمن کی طرف سے ہوشیار رہنا اور اس کی پیروی سے اجتناب کرنا اور دینی و سیاسی تقوی و پرہیزگاری کو انقلابی ہونے کے پانچ بنیادی معیار قرار دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انقلابی ہونے کے پہلے معیار یعنی بنیادی اصولوں اور اقدار کی پابندی کے بارے میں فرمایا کہ امریکی اسلام کے مقابلے میں حقیقی اسلام پر عقیدہ رکھنا اس معیار کا سب سے بنیادی نکتہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں؛ رجعت پسند اسلام اور سیکولر اسلام ہیں اور استکبار اسلام کی ان دونوں شاخوں کی حمایت کرتا ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دل کی گہرائیوں سے عوام کو محور و مرکز ماننے کو بھی انقلاب کے بینادی اصولوں کا جز قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی نظام میں عوام کے ووٹوں، مطالبات، اہداف اور مفادات کو سب سے زیادہ ترجیح حاصل ہے اور ان حقائق پر دل سے عقیدہ رکھنا انقلابی ہونے کی لازمی شرطوں میں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ترقی و پیشرفت، تبدیلی اور کمال کے حصول کو انقلاب کی ایک اور بنیادی اقدار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انقلابی انسان ان اقدار پر بھی گہرا عقیدہ رکھتا ہے اور ہر دن نئی تبدیلی اور حالات کی بہبودی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
محرومین اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی مدد اور دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت بھی رہبر معظم کی نگاہ میں ایک اور بنیادی اصول ہے جسے آپ نے انقلابی ہونے کے اقدار اور اصولوں کا جز قرار دیا۔

آپ نے مزید فرمایا کہ اگر یہ پابندی اور قرآن کی اصطلاح میں یہ استقامت موجود ہو تو طوفانی ہواؤں میں بھی نظام اور اسکے عہدیداروں کی پیش قدمی مستحکم اور سیدھے راستے پر ہوگی اور اگر یہ نہ ہو تو ہم انتہا پسندی کے شکار ہو جائیں گے اور ہر نئے حادثے پر ہمارا سمت اور ہمارا راستہ تبدیل ہوجائے گا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد انقلابی ہونے کی دوسری اہم خصوصیات یعنی پیشرفت اور اہداف تک رسائی کے لئے بلند ہمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی بھی قسم کے حالات میں انقلاب اور عوام کے اہداف کی تکمیل کے لئے جدوجہد سے صرف نطر نہیں کرنا چاہئے اور موجودہ صورتحال سے مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے۔

آپ نے سستی، کاہلی اور مایوسی کو اس اہم صفت کے مدمقابل قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا  کہ پیشرفت کا راستہ ختم ہونے والا نہیں ہے، لہذا انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ اس راستے پر مسلسل آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔

انقلابی ہونے کے تیسرے معیار یعنی خود مختاری کا پابند رہنے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی نے اما خمینی کی ستائیسویں برسی پر عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اس کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی پہلوؤں پر مشتمل تین پہلووں کو بیان فرمایا۔
آپ نے فرمایا کہ سیاسی خود مختاری کا حقیقی معنیٰ یہ ہے کہ ہم دشمن کی مختلف چالوں سے فریب نہ کھائیں، بلکہ ہمیشہ دا‏خلی، علاقائی اور بین الاقوامی خود مختاری کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دشمنوں بالخصوص امریکا کی مکاری اور اسکی سازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ہمیشہ دھمکیوں کا ہی سہارا نہیں لیتے، بلکہ بسا اوقات مسکراہٹ بلکہ چاپلوسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، مثال کے طور پر خط بھیجتے ہیں کہ آئیں عالمی مسائل کو باہمی تعاون سے حل کریں، ایسے موقع پر ممکن ہے انسان دشمن کے پس پردہ اہداف سے غافل ہو کر اس لالچ میں پڑ جاتا ہے کہ چلیں بہت اچھا ہے ہم عالمی مسائل کے حل کے لئے ایک سپر پاور کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کی جانب سے عالمی مسائل کے حل کے لئے تعاون کی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن نے اپنے مورد نطر مسائل کے حل کی خاطر جو میدان سجایا ہے اور کھیل تیار کیا ہے آپ اسی کے تحت اپنے حصے کا کام انجام دیں۔

آپ نے اس سلسلے میں ایک مصداق بیان کرتے ہوئے شام کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم جو شام کے مسئلے میں اور اسی طرح کے دیگر مسائل میں امریکا کے نام نہاد اتحاد میں شریک نہیں ہوئے اس کی وجہ یہی تھی کہ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ہمارے اور دوسرے ملکوں کی قدرت و طاقت اور اثر و رسوخ کو استعمال کرکے اپنے مورد نطر اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔

رہبر انقلاب نے ایک اہم مسئلے کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کام جو بظاہر خود مختاری سے میل نہیں کھاتے، لیکن عملی طور پر دشمنوں کے منصوبے کو پورا کرنے کے مترادف ہیں اور در حقیقت خود مختاری کے خلاف ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خود مختاری کے دوسرے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ثقافتی خود مختاری کی بے مثال اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ انقلابی ہونے کا مطلب اسلامی ایرانی طرز زندگی کا انتخاب اور مغرب و اغیار کی تقلید سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا ہے۔

آپ نے سائیبر اسپیس کے جدید وسائل کو انفارمیشن کی ہیرا پھیری اور اقوام عالم کی ثقافتوں پر مغرب کے غلبے کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ وسائل نفع بخش بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے غلبے اور مداخلت کو ان وسائل سے جدا کر دیا جائے اور اس طرح عمل کیا جائے کہ سائیبر اسپیس دشمن کے ثقافتی تسلط اور مداخلت کا ذریعہ نہ بن سکے۔
انقلابی ہونے کے تیسرے معیار یعنی ملک کی ہمہ جانبہ خود مختاری کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا  کہ اقتصادی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ خود کو عالمی برادری کے معاشی نظام میں ہضم ہو جانے سے بچایا جائے۔
آپ نے فرمایا کہ امریکیوں نے ایٹمی مذاکرات کے بعد کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایران کی معیشت کے عالمی برادری میں ضم ہو جانے پر منتج ہونا چاہئے، اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ایران اس پلان اور منصوبے کے اندر ہضم ہو جائے کہ جو بڑے سرمایہ داروں نے جن میں بیشتر صیہونی ہیں، دنیا کے مالیاتی وسائل پر قابض ہونے کے لئے تیار کیا ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکیوں نے پابندیوں کے ذریعے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دینے کی کوشش کی تھی اور جب مذاکرات کامیاب ہو گئے تو اب وہ چاہتے ہیں کہ ایران کی معیشت عالمی اقتصاد کے ہاضمے میں جس کا سرپرست امریکا ہے ہضم ہو جائے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استقامتی معیشت کوخود مختاری کے حصول کا واحد راستہ گردانتے ہوئے فرمایا کہ یہ خوشقسمتی سے حکومت نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق، استقامتی معیشت، اقدام اور عمل کے سال میں کچھ عملی اقدامات کئے ہیں، اور اگر یہ عمل اسی قوت کے ساتھ جاری رہے، تو یقینی طور پر عوام اس کے ثمرات دیکھیں گے۔

آپ نے فرمایا کہ تمام بڑے فیصلوں اور اقدامات منجملہ دیگر ملکوں سے ہونے والے معاہدوں میں استقامتی معیشت کو بہت سنجیدگی سے مد نظر رکھا جائے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایسے افراد پر تنقید کرتے ہوئے کہ جو اقتصادی ترقی کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر سمجھتے ہیں فرمایا کہ غیر ملکی سرمایہ ملک کے اندر آنا اچھا اور ضروری ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم ملک کی اندرونی صلاحیتوں کو متحرک کرنا ہے، اور ہر چیز کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر منحصر نہیں کرنا چاہئے۔

آپ نے اسی سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے نئی اور پیشرفتہ ٹیکنالوجیز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی ملک ایسی ٹیکنالوجی دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں دیتا تو وہی نوجوان جنھوں نے ایران کو نینو ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی میں، اسی طرح بعض دیگر میدانوں میں دنیا کے صف اول کے دس بہترین ملکوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کی ضرورت کی دوسری ٹیکنالوجیز بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد انقلابیت کے چوتھے معیار یعنی دشمن کی طرف سے حساس رہنے کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ محاذ جنگ کی طرح ہمیشہ دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنی چاہئے، اس کے اہداف و مقاصد کی شناخت اور پوری تندہی کے ساتھ دشمن کی سرگرمیوں کے ممکنہ زہر سے بچائو کے تریاق کو تیار رکھنا چاہئے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایسے افراد پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہ جو امریکا کی آشکارا اور تکراری دشمنیوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے دشمن کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کو توہم قرار دیتے ہیں، فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران سے امریکا کی واضح، دائمی اور عمیق دشمنی کا انکار بذات خود ایک سازش ہے جس کا مقصد شیطان بزرگ کے سلسلے میں تندہی اور ہوشیاری کو کم کرنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کی دشمنی کو اسکی ماہیت کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ توسیع پسندانہ نظام، جنگ کی آگ بھڑکانے، دہشت گردی کی حمایت، حریت پسندوں کی سرکوبی، اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے ذریعے اپنی فطرت کو ظاہر کر رہا ہے لیکن اسلامی نظام اس سرکوبی پر خاموش اور بے اعتنا نہیں رہ سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یمن کے عوام پر حملہ آور جارح ملک کی امریکا کی جانب سے براہ راست مدد  کو بے گناہ عوام کے قتل عام اور ان پر ہونے والی بمباری میں شریک ہونے کے مترادف قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ان جرائم پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہر فرد یا ہر گروہ کہ جو اسلام کے لئے اور اسلام کے نام پر کام کر رہا ہے اگر اس نے امریکا پر اعتماد کیا تو یہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب ہوگا اور وہ بہت جلد اس کا خمیازہ بھگتے گا۔
آپ نے فرمایا کہ انہیں گذشتہ چند سالوں  کے دوران خطے کی بعض اسلامی تنظیموں نے "عقل سیاسی" اور "حربے" کے نام پر امریکیوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن آج انہیں شیطان بزرگ پر اعتماد کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے برطانیہ کو ملت ایران کا حقیقی خبیث دشمن قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ برطانیہ ملت ایران کے خلاف اپنی خباثتوں سے کبھی بھی باز نہیں آيا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اسی دشمنی کا نتیجہ ہے کہ حکومت برطانیہ کا تشہیراتی ادارہ عظیم اور بلند مرتبہ امام خمینی رح کی برسی کے موقع پر امریکیوں کی مدد اور جعلی اسناد کے ذریعے ملت ایران کے امام راحل کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ منحوس غاصب صیہونی حکومت کو بھی ملت ایران کا دشمن قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دشمنوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے اور ان کی ہر تجویز من جملہ سیاسی و اقتصادی تجاویز کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیا جانا چاہئے، کیونکہ اگر یہ تندہی اور ہوشیاری رہے گی تو اس کے نتیجے میں ان کی عدم اطاعت کا جذبہ پیدا ہوگا اور یہی عظیم جہاد ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح انقلابیت کے آخری معیار یعنی دینی و سیاسی تقوی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دینی تقوی کا معنی یہ ہے کہ اسلام نے معاشرے کے لئے جن اہداف کا تعین اور مطالبہ کیا ہے ان سب کے حصول کے لئے محنت اور ان کی نگرانی کی جائے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ اس سلسلے میں صرف عقلی تخمینوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ان اہداف کی نگرانی کیا جانا دینی فرائض کا جز ہے اور جو بھی اسلام کو دینی و سماجی میدان سے جدا کرے گا، اسے گویا دین مبین اسلام کی شناخت ہی نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اگر دینی تقوی پیدا ہو گيا تو سیاسی تقوی بھی حاصل ہو جائے گا اور وہ انسان کو سیاسی اور انتظامی لغزشوں سے محفوظ رکھے گا۔

امام خمینی رح کی برسی کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی  کی عظیم الشان اجتماع سے گفتگو کا آخری حصہ چند نصیحتوں پر مشتمل تھا کہ جن میں سے سب سے پہلی نصیحت امام خمینی رح کو ایک اسوہ کامل کے طور پر ہمیشہ مد نظر رکھے جانے کے بارے میں تھی۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سلسلے میں فرمایا کہ آج جو روڈ میپ بیان کیا گيا امام خمینی رح اس کے تمام معیارات میں سب سے والا مقام پر فائز ہیں، اور انھیں ایک اسوہ کامل کے طور پر دیکھا اور اپنایا جانا چاہئے۔

آپ نے صحیفہ امام اور اسی طرح امام خمینی کے وصیت نامے کا مطالعہ اور اس کی عبارتوں میں غور و فکر، امام خمینی کے فرمودات اور مواقف سے انسیت، عالم ملکوت کا سفر کرنے والے اپنے اس عزیز کی زندگی کو نمونہ عمل قرار دینے کا صحیح راستہ قرار دیا اور اس سلسلے میں تمام افراد، خاص طور پر نوجوانوں کو نصیحت فرمائی۔

رہبر انقلاب اسلامی کی دوسری نصیحت ایٹمی مذاکرات سے حاصل ہونے والے تجربے کو ہرگز فراموش نہ کرنے کے سلسلے میں تھی۔

آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس تجربے سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ اگر امریکا کے مقابلے میں ہم نے نرمی بھی دکھائی تب بھی وہ اپنے تخریبی کردار سے باز نہیں آئے گا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے گروپ پانچ جمع ایک سے ہونے والے مذاکرات حتیٰ امریکا سے ہونے والے علیحدگی میں ایٹمی ،سائل کے بارے میں ہونے والے مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے سرگرم بھائیوں کی انتھک محنت کے نتیجے میں مذاکرات ایک مشترکہ موقف تک پہنچے لیکن امریکا نے اب تک عملی طور پر اپنے وعدوں کے سلسلے میں بد دیانتی اور وعدہ خلافی کا ثبوت دیا ہے اور دھوکا دہی کرتا رہا ہے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ بہت سے افراد تو مذاکرات کے پہلے سے ہی امریکا کے اس مزاج سے واقف تھے اور پیشین گوئی بھی کر رہے تھے لیکن بعض افراد نہیں جانتے تھے تو اب انہیں جان لینا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر بفرض محال انسانی حقوق، میزائلی توانائی، دہشت گردی، لبنان، فلسطین اور کسی بھی دوسرے مسئلے میں ہم امریکا سے گفتگو اور مذاکرات کریں اور اپنے اصولوں اور موقف سے پیچھے ہٹ جائیں تب بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا اور مسکراہٹ اور میٹھی باتوں کے ساتھ ساتھ میدان عمل میں اپنے انہیں اہداف کے لئے کام کرے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی تیسری نصیحت حکومت اور ملت کے اتحاد سے متعلق تھی۔

آپ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ بعض افراد کو بعض اوقات حکومت کے کام پسند آئیں یا پسند نہ آئیں، البتہ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن کسی بھی حالت میں ملت اور حکومت کا اتحاد ختم نہیں ہونا چاہئے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ البتہ حکومت پر تنقید کرنے اور اس سے مطالبات میں کوئی حرج نہیں اور اسکا اتحاد و یکجہتی سےکوئی تضاد بھی نہیں ہے، لیکن جس طرح میں نے دیگر حکومتوں کے دور میں ہمیشہ یہ نصیحت کی، اسی طرح آج بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ کدورت و نفاق کی کیفیت پیدا نہ ہو، بلکہ دشمنیوں اور خطرات کے مقابلے میں سب شانہ بشانہ کھڑے نظر آئيں۔

آپ نے عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے باہمی اتحاد و ہم آہنگی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ یکجہتی اور اپنے اپنے قانونی فرائض کی انجام دہی میں کوئی تضاد نہیں ہے، البتہ ذاتی یا گروہی رجحانات کے تحت ان اداروں کی ہمدلی اور تعاون کے ماحول کو خدشہ دار نہیں کرنا چاہئے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایسی باتیں زبان پر لانے سے اجتناب کرنا چاہئے جو دھڑے بندی، دو گروہوں میں تقسیم یا تصادم کا باعث بنیں، تاکہ دشمن پورے ایران کو متحد ملک کی صورت میں دیکھے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی چوتھی نصیحت امریکا سے تقابل کو محاذ تصور کرنے سے متعلق تھی۔

آپ نے فرمایا کہ بیشک امریکا اس محاذ کے مرکز میں موجود ہے لیکن یہ محاذ مختلف علاقوں یہاں تک کہ بعض اوقات ملک کے اندر تک پھیل جاتا ہے، لہذا اس محاذ کی ظاہرہ اور پوشیدہ سبھی شاخوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہئے۔

دشمن سے اپنے فاصلے کو برجستہ اور نمایاں رکھنا رہبر انقلاب اسلامی  کی عظیم الشان اجتماع سے گفتگو میں پانچویں نصیحت تھی۔

آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بعض داخلی حلقوں نے اس اہم ضرورت سے غفلت کی وجہ سے اس فاصلے کو قائم نہیں رکھا جس کے نتیجے میں یہ فاصلہ مبہم ہو گیا، لیکن ہمیں اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے کہ انقلاب، امام خمینی اور ملت کے دشمنوں سے ہماری سرحدیں ماند نہ پڑ جائیں۔

اور عوام اور عہدیداران کے لئے رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی چھٹی اور آخری نصیحت میں فرمایا کہ خداوند متعال کی ذات پر توکل کریں اور اسکی مدد اور نصرت کے وعدے پر پورا یقین رکھیں اور اس بات کا اطمینان رکھیں کہ ہمارا مستقبل دشمنوں کی مرضی کے برخلاف ایران کے عوام اور نوجوانوں کا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے آستانہ امام خمینی رح کے متولی حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے اپنی تقریر میں اسلامی انقلاب کو الہی و عوامی انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہدایت الہی، عزت و وقار، الفت و مہربانی، وحدت، خداوند متعال کی نصرت اور مدد اور عوامی پشت پناہی امام خمینی رح کی عظیم اور تاریخی تحریک کی بے مثال خصوصیات ہیں اور یہ تحریک اور عظیم جد و جہد امام خمینی رح کی رحلت کے بعد آپ کے بہترین جانشین کے انتخاب کی برکت سے بہترین شکل و صورت میں جاری ہے۔

ٹیگس