طلبہ سے خطاب؛ انتہائی اہم مسائل کے بارے میں کلیدی سفارشات
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندوں سمیت ایک ہزار سے زائد طلبہ سے ملاقات میں مختلف موضوعات کے بارے میں گفتگو کی۔ ہفتے کی شام تقریبا پانچ گھنٹے چلنے والی اس بے تکلف اور شفقت آمیز ملاقات میں طلبہ کے مسائل، نیز نوجوان نسل کے ثقافتی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی امور کا جائزہ لیا گيا۔ طلبہ نے یونیورسٹیوں اور طلبہ کے مسائل، ان کے اہم فرائض اور گوناگوں معروضی مسائل کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے خیالات کے بارے میں اپنے نظریات بیان کئے۔
اپنی تقریر کے آغاز میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں طلبہ سے ہونے والی ملاقات حقیقت میں نہایت شیریں اور خوش آئند ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس ملاقات میں گوناگوں مسائل اور نظریات کی پیشکش انتہائي لذت بخش اور طلبہ کی فکری سطح کے ارتقاء کی علامت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلابی جذبات، روشن خیالی اور محکم استدلال طلبہ کے درمیان قابل لحاظ حد تک بڑھا ہے اور اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبہ کو قرآن اور دعاؤں سے مانوسیت بڑھانے کی سفارش کی اور فرمایا کہ طلبہ کے لئے میری بنیادی تاکید ایمان کو تقویت پہنچانے سے متعلق ہے، کیونکہ مستحکم ایمان کے ذریعے ہی مشکلات اور سختیوں کا مقابلہ اور پیکار و جہاد کیا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے موجودہ حساس اور خاص نوعیت کے حالات کو زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ہونے والی جنگ احزاب کے حالات کے مماثل قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت بھی تمام دنیا پرست اور استبدادی طاقتیں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صف آرا ہیں اور ہر سمت سے اس پر حملے کر رہی ہیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ان حالات میں وہ لوگ جن کا ایمان کمزور ہے یا دشمن کی جانب باطنی میلان رکھتے ہیں، قنوطیت، مایوسی اور احساس کمتری کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن محکم ایمانی جذبہ رکھنے والے افراد، سخت ترین حالات میں بھی، عزم و ارادے کے ساتھ استقامت کا ثبوت دیتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں قرآن کی بعض آیتوں کا حوالہ دیا جن میں ایمان سے آراستہ قوموں کی آئندہ نسلوں کے انحطاط کا ذکر ہے، آپ نے فرمایا کہ 'نماز ضائع کرنا' اور خواہشات کی پیروی استقامت و جہاد کے جذبے کے زوال اور اضمحلال کے دو بنیادی عوامل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامت کے جذبے میں ایمان کے بنیادی کردار کی تشریح کرنے کے بعد استکباری محاذ سے ملت ایران کے فیصلہ کن اور ناگزیر پیکار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ملت ایران نے خود مختار اور پیشرفتہ قوم میں خود کو بدل لینے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ فیصلہ توسیع پسند عالمی طاقتوں کے مفادات سے متصادم تھا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایسے افراد پر تنقید کی جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بڑی طاقتوں سے نا اتفاقی کے بہانے تلاشتا رہتا ہے۔ آپ نے اسے سطحی فکر اور تدبر سے عاری بات قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس لڑائی کے لئے بہانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جب تک ملت ایران حمیت، اور انقلابی ماضی اور اسلام کی اساس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہی ہے، یہ لڑائی بھی جاری رہے گی اور اسے ختم کرنے کا دو ہی راستہ ہو سکتا ہے؛ یا تو اسلامی جمہوریہ اتنی قوت و توانائی اپنے اندر پیدا کر لے کہ فریق مقابل کے اندر تعرض کی جرئت ہی نہ رہے، یا پھر اسلامی جمہوریہ اپنی اصلی شناخت کو ختم کرکے صرف بے جان ظاہری روپ پر اکتفا کر لے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس لڑائی کو ختم کرنے کا اول الذکر راستہ یعنی مکمل اقتدار و توانائی کا حصول ملت ایران کا پسندیدہ راستہ ہے، آپ نے فرمایا کہ شاید آج امریکا کی پالیسی کا تقاضا یہ ہو کہ اسلامی نظام کے عہدیداران میں پھوٹ ڈال دے اور انھیں اچھے اور برے عہدیداروں میں بانٹ دے، لیکن اگر امریکیوں کا بس چلے تو یہ اچھے عہدیداران بھی ان کی نظر میں برے بن جائیں کے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق اسلامی نظام کی شناخت اور ماہیت ملت ایران پر دشمنوں کے حملے کا بنیادی نشانہ ہے، آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام سے مراد نظام کا مکمل ڈھانچہ اور اس کے اقدار و اہداف منجملہ مساوات، علمی پیشرفت، اخلاقیات، جمہوریت، قانون پسندی اور اعلی اہداف کا التزام ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے طلبہ کو دشمن ذرائع ابلاغ کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ دشمنوں نے بڑے بڑے بجٹ خرچ کرکے اسلامی نظام کے خلاف بہت وسیع اور پیچیدہ ابلاغیاتی مہم چھیڑ رکھی ہے جس کا اصلی مقصد اسلامی جمہوریہ کے مثبت پہلوؤں پر پردہ ڈالنا اور عوام اور نوجوانوں میں مایوسی اور قنوطیت پھیلانے کے لئے منفی پہلوؤں کو سامنے لانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یوم القدس کے جلوسوں میں عوام کی بہت وسیع پیمانے پر شرکت کو بیرونی میڈیا میں کوریج نہ ملنے کو دشمن ذرائع ابلاغ کی کارکردگی کا ایک نمونہ قرار دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ جمعے کے دن شدید گرمی میں روزہ رکھ کر جلوسوں میں شرکت واقعی حیرت انگیز ہے، لیکن اس کم نظیر منظر کو اغیار کے ذرائع ابلاغ میں مناسب کوریج نہیں ملی، جبکہ کوئی غیر مثبت بات نظر آ جاتی ہے تو اسے دس گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ طلبہ تنظیموں کے ارکان کی ذمہ داریاں دیگر طلبہ کی ذمہ داریوں سے بالاتر ہیں، آپ نے موجودہ سیاسی حالات کی پیچیدگی اور تہہ در تہہ صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے پہلے عشرے میں اور مقدس دفاع کے دوران دشمن کا مقابلہ کرنا بالکل واضح اور آسانی سے سمجھ میں آ جانے والی بات تھی، لیکن آج سیاسی، ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور سیکورٹی حالات کی بہم وابستگی کی وجہ سے حالات بالکل پیچیدہ ہو گئے ہیں اور ذمہ داریاں بہت زیادہ سنگین ہو گئی ہیں اور ان حالات کا سامنا کرنے کے لئے آنکھیں کھلی رکھنے اور فکر و تدبر اور دقت نظر سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ حالات کی پیچیدگی کا ذکر کرتے ہوئے طلبہ تنظیموں کے فرائض کی تشریح میں اہم سفارشات کیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کی پہلی سفارش ملک کے بنیادی مسائل میں فکری طور پر شریک رہنے اور ضرورت پڑنے پر جسمانی طور پر میدان میں نظر آنے سے متعلق تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان، امریکا سے تعلقات، استقامتی معیشت اور ملکی مستقبل کو ان بنیادی موضوعات میں قرار دیا جن میں طلبہ یونینیں در حقیقت نرم جنگ کے افسروں کی حیثیت سے ان مسائل کے بارے میں اپنا انقلابی، مدلل اور محکم موقف بیان کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا سے تعلقات کے بارے میں فرمایا کہ طلبہ یونینیں امریکا سے روابط کی بحالی سے انکار اور اس ملک سے کچھ خاص مسائل کے علاوہ مذاکرات کی نفی پر مبنی رہبر انقلاب کے موقف پر غور کریں اور اس سلسلے میں محکم استدلالوں کو طلبہ اور دوسرے افراد کے سامنے محکم اور مدلل انداز میں پیش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبہ کو سیاسی و دینی فہم و شعور کی سطح بڑھانے کی بھی سفارش کی۔ آپ نے اسی طرح فرمایا کہ طلبہ کو چاہئے کہ اسلامی نظام کا صریحی طور پر بغیر کوئی تقیہ کئے، دفاع کریں۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن خامیوں، کمیوں، کوتاہیوں اور نقائص کو بنیاد بنا کر انقلاب کو غیر اہم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور عظیم کامیابیوں کو نظر انداز کرتا ہے، طلبہ کو چاہئے کہ اس صورت حال کو بدلیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بڑی مادی طاقتوں کے وسیع محاذ کا 37 سال سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ افتخار آمیز اسلامی نظام کی بڑی کامیابی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے طلبہ تنظیموں کو سفارش کی کہ عالم اسلام کی سطح پر امریکا اور صیہونیت مخالف متحدہ محاذ تشکیل دیں۔ آپ نے فرمایا کہ سائیبر اسپیس میں اور وسیع مواصلاتی ذرائع کی مدد سے امریکا اور صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مسلم طلبہ کی عمومی مہمات چلائی جا سکتی ہیں، تاکہ موقع پڑنے پر مسلمان طلبہ اپنے متحدہ موقف کی مدد سے عالم اسلام کی سطح کی تحریک کا آغاز کر دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے معاملے میں امریکیوں اور فرانسیسیوں کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس معاملے میں ثابت ہو گیا کہ امریکی بشمول حکومت اور کانگریس کے، ملت ایران سے دشمنی نکالنے میں مصروف ہیں۔ بنابریں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے دشمن کا مقابلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے تاکہ ہم اس کے فریب میں آکر اس نقشے کا حصہ نہ بن جائیں جو دشمن نے تیار کیا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بحران شام سمیت علاقائی مسائل کے بارے میں ایران سے ہم آہنگی اور مذاکرات میں امریکیوں کی دلچسپی کے دعوے کے بارے میں فرمایا کہ ہم ایسی ہم آہنگی نہیں چاہتے کیونکہ ان کا مقصد علاقے میں ایران کا کردار ختم کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران علاقے میں امریکا کی مداخلت پسند نہیں کرتا اور علاقائی مسائل کے بارے میں ایران کا یہ موقف معقول اور منطقی بنیادوں پر استوار ہے۔