Jan ۲۳, ۲۰۱۶ ۱۷:۵۹ Asia/Tehran
  • افغانستان میں داعش کی موجودگی امریکہ کے لیے ایک اور بہانہ

امریکی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نام نہاد پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسے افغانستان میں داعش کے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی اجازت مل گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس نے امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کو افغانستان میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ امریکہ ایک ایسے وقت میں یہ اعلان کر رہا ہے کہ اس نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کو داعش کے دہشت گردوں پر حملہ کرنے کی اجازت دے دی ہے کہ جب اس سے قبل امریکہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کو مسترد کر رہا تھا اور اس بات کا دعویدار تھا کہ ابھی تک داعش گروہ مشرق وسطی سے افغانستان منتقل نہیں ہوا ہے۔ لیکن جب دہشت گرد گروہ داعش کے دھڑوں نے امریکہ اور یورپی ملکوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو واشنگٹن افغانستان میں اس گروہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تاکہ اس کی دہشت گردی کا دائرہ دوسرے علاقوں تک نہ پھیلے۔

اسی دوران بعض سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش کے وجود میں آنے سے مغربی ملکوں خصوصا امریکہ کو مناسب بہانہ مل گیا کہ وہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد اور فوجی آپریشن میں بھی اضافہ کر دے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب حال ہی میں امریکی حکام نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے طالبان پر حملے روک دیے ہیں اور امریکہ اس گروہ کو افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مائل کرنا چاہتا ہے۔ یہ صورت حال اس تجزیہ و تحلیل کی تائید کرتی ہے کہ امریکہ طالبان کے بعد افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھنے کے لیے اس ملک میں انتظامی بحران پر قابو پانے کے نام پر ایک نئے بہانے کی تلاش میں ہے۔

دریں اثنا بعض سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں داعش کے خلاف امریکی فوج کی کارروائیوں کے آغاز کا مقصد، دہشت گردوں کو افغانستان کے شمالی علاقوں کی طرف دھکیل کر انھیں وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے میں بھیجنا ہے۔ داعش کا ایک پروگرام کہ جس کی امریکہ اور عرب ممالک حمایت کر رہے ہیں، انتہا پسندی اور دہشت گردی کو وادی فرغانہ میں منتقل کرنا اور اس کے بعد اسے وسطی ایشیا کے ممالک، قفقاز اور صوبہ سین کیانگ میں چین کی سرحدوں تک پھیلانا ہے۔ بنا بریں امریکہ منصوبہ بند کارروائی کر کے چاہتا ہے کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کو چند علاقوں تک محدود کر کے انھیں روس اور چین کی سرحدوں کی طرف دھکیل دے۔

یہ ایسی صورت حال ہے کہ جس پر روسی حکام نے بھی کئی بار تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ افغانستان میں بدامنی کا بحران جاری رکھ کر علاقے میں مغربی فوجیوں کو باقی رکھنے کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی سرحدوں کو ناامن بنا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کو وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے میں منتقل کر کے یورپ اور امریکہ کو ان کے گزند اور نقصان سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

بہرحال دو ہزار ایک میں دہشت گردی اور منشیات کا مقابلہ کرنے کے بہانے امریکہ کی جانب سے افغانستان پر قبضے کا نہ صرف کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ افغانستان کی حکومت اس ملک میں امن و استحکام قائم کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اسی بنا پر علاقے کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں داعش کے ٹھکانوں پر حملے کے امریکی دعوے کا اہم ترین مقصد، رائے عامہ کو دھوکہ دینا، اس ملک میں اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کا جواز پیش کرنا اور وسطی ایشیا اور قفقاز کے ممالک کی سرحدوں کو خطرے سے دوچار کرنا ہے۔

ٹیگس