Jun ۲۸, ۲۰۱۷ ۱۵:۳۰ Asia/Tehran
  • شامی فوج کی کامیابیاں اور دہشت گردوں کی مسلسل شکست

شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے منگل کے دن کہا کہ شام کی فوج کے دباؤ کے نتیجے میں دہشت گرد گروہ داعش اس ملک سے پسپائی اختیار کر رہا ہے۔

اسٹیفن دی مستورا نے شام میں کشیدگی میں کمی والے علاقے قائم کئے جانے کے بارے میں کہا کہ ان علاقوں کے قیام سے متعلق اتفاق رائے کے لئے سنجیدہ کوشش ہو رہی  ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم آئندہ آستانہ مذاکرات میں اس مسئلے پر گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ شام میں دہشت گردوں کے جرائم کے مواقع کم ہونے اور ان کی مسلسل شکستوں کے  پیش نظر اس ملک میں کشیدگی میں کمی والے علاقوں کے قیام کا راستہ پہلے سے زیادہ ہموار ہوا ہے۔

آستانہ میں اب تک اعلی سطحی مذاکرات کے چار دور ہو چکے ہیں۔ جن میں شام کی حکومت، ایران ، روس اور ترکی نیز جنگ بندی قبول کرنے والے مسلح گروہوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔

آستانہ مذاکرات کا ایک نتیجہ شام میں کشیدگی میں کمی والے علاقوں کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے جانے کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہ مذاکرات اسلامی جمہوریہ ایران، روس اور ترکی کے زیر اہتمام انجام پائے۔ ان مذاکرات کا مقصد شام میں امن قائم کرنا تھا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب مغرب کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت کے مقصد سے جنیوا میں کئے جانے والے مذاکرات آج تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے ہیں ۔

سیاسی امور کے ماہر فواد الوادی نے شام سے شائع ہونے والے اخبار الثورہ میں جنیوا اجلاسوں اور اپنی فوجی شکستوں کو ان اجلاسوں میں سیاسی کامیابیوں میں تبدیل کرنے پر مبنی دہشت گردوں کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ دہشت گردوں کو مسلسل ناکامی اور شکست ہوئی ہے لیکن وہ بین الاقوامی حالات میں تبدیلی لانے والے عناصر کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔

شام کا بحران سنہ دو ہزار گیارہ سے سعودی عرب، امریکہ اور اس کے اتحادیوں منجملہ ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے وسیع حملے کے ساتھ شروع ہوا۔ اس بحران کا مقصد شام کے صدر بشار اسد کی قانونی حکومت کو گرانا تھا۔ لیکن سازشوں کے خلاف شام کی فوج اور عوام کی استقامت  کی وجہ سے عملی طور پر تمام اندازے نقش بر آب ہوگئے جس کی وجہ سے دنیا والے شام میں دہشت گردوں کو مسلسل شکست کھاتے ہوئے اور اس ملک سے بھاگتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

شام میں دہشت گردوں کو ہونے والی شکستوں کو عالمی سطح پر وسیع کوریج دی گئی اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اس کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔ بلاشبہ شام کی صورتحال نے ایک بار پھر ایک قوم کے لئے تیار کی گئی مختلف سازشوں کے مقابلے میں استقامت کے کردار کو زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔

جب شام کو وسیع پیمانے پر سازشوں منجملہ مغرب کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے وسیع حملے کا سامنا کرنا  پڑا  تو یہ بہت بعید لگتا تھا کہ شام کی قوم اس مرحلے سے گزر سکے گی اور یہ ملک دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ہوجائے گا خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ مغربی حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے تھے کہ شام کا کام تمام ہوچکا ہے اور اس ملک کی قانونی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ انہوں نے اپنے اندازوں میں سازشوں کے مقابلے میں شام کے عوام اور فوج کے عزم کو نظر انداز کر دیا تھا۔

بہرحال شام کی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی کامیابیوں نے اس ملک کے عوام کی استقامت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے اور اسے وسیع پیمانے پر کوریج بھی دی گئی ہے۔ بلاشبہ شام اور عراق میں دہشت گردوں کی شکست ان دہشت گردوں کے مقابلے میں عالمی برادری کی مزید کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی نکتہ دہشت گردوں کے مقابلے میں ممالک کے عوام اور دفاعی عناصر کا، کہ جن میں ممالک کی مسلح افواج بھی شامل ہیں، کردار زیادہ نمایاں ہونے سے عبارت ہے اور یہ چیز دہشت گردوں کی شکست کے سلسلے میں شام کی فوج کے کردار اور اس ملک کی صورتحال سے متعلق اسٹیفن دی مستورا کے بیانات میں صاف طور پر نظر آتی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی قیادت میں تشکیل پانے والے نام نہاد داعش مخالف اتحاد جیسے مغرب کے جعلی اتحادوں پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی اور دہشت گردوں کے مقابلے میں اقوام کی کوششوں میں تاخیر پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ برآمد نہیں ہوا ہے۔ دریں مغرب کے نام نہاد دہشت گردی مخالف اتحادوں کے اقدامات دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والے خطے کے ممالک خصوصا عراق اور شام میں مزید قتل عام اور تباہی کا باعث بنے ہیں۔

بہرحال دہشت گردوں کے مقابلے میں شام کے عوام کی کامیابیاں اس ملک کے لئے سیاسی ثمرات اور اس ملک کے بحران کے سیاسی حل میں تیزی پیدا ہونے کا سبب ہیں۔ یورپی ممالک میں مغربی حکومتوں کی جانب سے انجام پانے والے بے نتیجہ مذاکرات کے برخلاف آستانہ مذاکرات کے انعقاد کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ آستانہ مذاکرات میں شام کا بحران حل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ٹیگس