Jul ۱۹, ۲۰۱۷ ۱۸:۳۴ Asia/Tehran
  • امریکہ کا ایران مخالف پابندیاں جاری رکھنے پر اصرار

امریکہ کی ایران مخالف پالیسیوں میں پابندیوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ امریکی حکومت کے بعض سیاسی مشیروں اور قانون سازوں کا خیال ہے کہ ایران پر دباؤ ڈالنے کا بہترین آپشن پابندیاں ہیں۔

امریکی وزارت خزانہ نے اٹھارہ جولائی منگل کے دن ایران کی اٹھارہ کمپنیوں اور شخصیات پر مختلف بہانوں من جملہ میزائیلی پروگرام سے مرتبط  رہنے کے الزام کے تحت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی  وزارت خارجہ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران بھی جوابی رد عمل میں امریکہ کی بعض شخصیات اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرے گا۔

امریکی محکمہ خزانہ نے  اس سے قبل سترہ مئی کو سات ایرانی شخصیات اور ایرانی اور چینی کمپنیوں پر ایران کے میزائیلی پروگرام سے منسلک رہنے کے بہانے پابندی عائد کی تھی۔

امریکہ کی ایران مخالف پابندیوں کی طویل فہرست کا آغاز سنہ انیس سو اناسی میں تہران میں واقع امریکی سفارت خانے پر قبضے کے بعد سے ہوا ۔ امریکہ کا یہ سفارت خانہ جاسوسی کے اڈے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ چودہ نومبر سنہ انیس سو اناسی کو اس وقت کے امریکی صدر جیمی کارٹر (Jimmy Carter) نے امریکہ میں موجود ایران کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا۔

بیروت میں جب سنہ انیس سو چوراسی میں بم دھماکے ہوئے تو امریکہ نے ان کا الزام ایران پر لگایا اور اسی الزام کے ذریعے ایران مخالف پابندیوں کی فہرست مزید طویل ہوگئی۔

اس زمانے میں ایران کا نام ان ممالک کے ناموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا جو امریکہ کے نزدیک دہشت گردی کے حامی شمار ہوتے تھے۔ سرمایہ کاری اور تجارت کے میدان میں بھی تیس اپریل انیس سو پچانوے میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے اعلان کیا کہ وہ ایران میں امریکہ کی سرمایہ کاری اور تجارت پر پابندیوں کے بارے میں جامع  پابندیاں لگائیں گے۔ ایران اور لیبیا کے خلاف سنہ انیس سو چھیانوے میں منظور کیا جانے والا پابندیوں کا قانون بھی امریکہ کا ایک اور مخاصمانہ اقدام تھا جس کی رو سے دوسرے ممالک کو ایران میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

امریکہ کی وزارت خزانہ نے بھی ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر مالی پابندیاں عائد کی ہیں۔ جن میں ایک سو ڈالر سے زیادہ مالیت کے تحفے کو ایران بھیجنے سے لے کر ایرانی کمپنیوں کے ساتھ مالی معاملات انجام دینے تک پر پابندیاں شامل تھیں۔

سنہ دو ہزار گیارہ کے اواخر میں امریکہ نے غیر ملکی کمپنیوں کو ایرانی بینکوں کے ساتھ تجارت کرنے سے منع کر دیا۔ ان اقدامات کے بعد ایرانی اثاثوں کی لوٹ مار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد جارج بش نے ایک قانون منظور کیا جس کی رو سے دہشت گردی کے حامی اشخاص کے اثاثوں کو منجمد کیا جاسکتا تھا۔ اس قانون کے تحت  ہر مرتبہ ایران کے اندر یا ایران سے باہر رہنے والے بعض افراد کو ان پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

واشنگٹن کو ہر مرتبہ یہ امید  ہوتی تھی کہ وہ اقتصادی دباؤ ڈال کر ایران کو کمزور اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کر لیا گیا۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد امریکہ اب پابندیوں کے حربے کے ذریعے ایران کی میزائل صلاحیت کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔

امریکہ کے ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ راس لیٹنین (Ross Letenin) نے رواں سال مارچ کے مہینے میں امریکہ کے ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی ہیئرنگ کے دوران ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں کہا تھا کہ مشترکہ جامع ایکشن  پلان پر دستخط کے بعد ایران کی سب سے زیادہ مشکلات کھڑی کرنے والی سرگرمی اس ملک کا بیلسٹک میزائلوں کا پروگرام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ ایران کے خلاف اس قدر شدید پابندیاں عائد کرے گا کہ ایران ایک بار پھر اپنے میزائل پروگرام میں توسیع کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ انہوں نے ان پابندیوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اور مکمل طور پر موجودہ پابندیوں کو عملی جامہ  پہنانا چاہئے اور اس ملک پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا چاہئے کیونکہ ایران صرف طاقت اور دباؤ کے مقابلے میں ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

امریکہ سے شائع ہونے والے اخبار ہفینگٹن پوسٹ (Huffington Post)  نے لکھا تھا کہ اکثر امریکی عوام کو اس بارے میں تشویش لاحق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی لفاظی میں موجود خطرات کے ادراک سے عاجز ہیں۔ 

بہرحال ایسا لگتا ہےکہ امریکہ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا ہے اور ابھی تک اسے یہ باور نہیں ہوا ہے کہ اس پالیسی میں ہار امریکہ کا مقدر ہی بنے گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے منگل کو سی بی ایس نیوز چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدہ، چند فریقی معاہدہ ہے لہذا یہ کوئی دوطرفہ معاہدہ نہیں جس کو نظرانداز کریں یا اس حوالے سے از سر نو مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔

ٹیگس