Oct ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • خلیج فارس میں ٹرمپ کے نظام کی برقراری کی کوشش

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے خلیج فارس کے ملکوں کے اپنے دورے کا آغاز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے کیا ہے-

میڈیا ذرائع کہ کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورۂ خلیج فارس کا مقصد، امریکہ اور سعودی عرب کے دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لینا ، سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات میں کمی لانا نیز ان تعلقات کو مستحکم کرنا اور آخرکار ایران مخالف نیا اتحاد قائم کرنا ہے- واشنگٹن اس کوشش میں ہے کہ مغربی ایشیاء میں داعش کی نابودی کے موقع پر، اس علاقے میں اپنے مدنظر نظام کو قائم کرے - علاقے میں ٹرمپ کا نظام قائم کرنے کا اہم مقصد، سعودی عرب کو مضبوط کرنا اور ایران کو کمزور کرنا ہے- اسی سبب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی صدر کی حیثیت سے اپنا پہلا دورہ، سعودی عرب کا ہی انجام دیا تھا اور اس دورے میں چار سو ارب ڈالر سے زیادہ کا فوجی اور غیر فوجی  معاہدہ کیا تھا-

یہ ایسے وقت میں ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے ریاض کی بھرپور حمایت پر مبنی علاقائی پالیسی کے سبب ، سعودی عرب اور قطر کے درمیان دیرینہ اختلافات ابھر کر سامنے آگئے- یہ اختلافات اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب امریکی اور سعودی حکام اس کوشش میں تھے کہ علاقے کی ایک بڑی طاقت یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مغربی ایشیاء کے ممالک کو اکسائیں اور ایران سے مقابلے کے لئے ان کو آمادہ کریں- واشنگٹن اور ریاض کے نقطۂ نگاہ سے ایران کا خودمختار اور طاقتور وجود ، علاقے میں ٹرمپ کے نظام کی تشکیل میں اہم ترین رکاوٹ ہے- اسی بناء پر ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کی حمایت  جیسے بے بنیاد بہانوں کے ذریعے، ایران سے مقابلے کو دونوں ملکوں کے حکام نے اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے - اس درمیان اسرائیل بھی امریکیوں کی وساطت سے، سعودی اتحادیوں میں تبدیل ہوگیا ہے- 

اس کے ساتھ ہی وہ چیز جسے ٹرمپ حکومت، ایران کو قابو میں کرنے کی کوشش کا نام دے رہی ہے، کوئی نیا اقدام نہیں ہے بلکہ چارعشروں قبل یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے وقت سے ہی ایران مخالف اس طرح کے اقدامات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا - امریکہ کے تمام سابق صدور نے ایران کو قابو میں کرنے کے لئے اپنی اپنی انتھک کوششیں کر ڈالی ہیں لیکن ہر مرتبہ علاقے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہی ہوا ہے- اسرائیل اور امریکہ کا ہدف علاقے کے ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات میں خلل ڈالنا ہے۔ واشنگٹن اور تل ابیب نے بعض علاقائی ملکوں کو اپنی چالوں میں پھنسا کر علاقے کی سکیورٹی اور علاقائی ملکوں کے اتحاد کو نشانہ بنا رکھا ہے۔

ان ملکوں کی ثروت و دولت عراق، شام اور یمن میں جنگوں اور دہشتگردوں کی مالی حمایت کرنے میں خرچ ہورہی ہے۔ دوہزار تین سے عراق میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی مداخلت اور اس کے بعد شام میں مداخلت سے علاقہ ، دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ اور عدم استحکام کا مرکز بن گیا ہے ۔ یہ سلسلہ نہیں رکے گا مگر یہ کہ علاقے کے بعض ممالک بیدار ہوجائیں اور حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بے بنیاد دعوے اور الزامات لگانے کے بجائے اپنی کارکردگی کی اصلاح کرلیں۔

ٹرمپ کی حکومت نے ایران مخالف اپنے اقدامات تیز کردیے ہیں اور وہ ایران کی علاقائی پالیسیوں پر شدید نالاں ہیں- اور یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ امریکی حلقوں میں ایران پر مزید دباؤ بڑھانے نیز میزائلوں اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی پر پابندی عائد کرنے کی بات ہو رہی ہے- علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موثر اور فیصلہ کن کردار منجملہ شام اور عراق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مشیروں کی موجودگی نے امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ہے- ایران کے خلاف ٹرمپ کا غصہ، اور ایٹمی معاہدے پر یلغار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مغربی ایشیا کے اسٹریٹیجک علاقے میں امریکہ اور اس کے حامیوں کی پالیسیاں شکست سے دوچار ہوچکی ہیں۔

ٹیگس