Jan ۱۴, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۴ Asia/Tehran
  • آنگ سان سوچی نے روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کی حمایت کی

میانمار کی وزیر خارجہ اور حکومت کی مشیر اعلی آنگ سان سوچی نے ہفتے کے روز ، اس ملک کی فوج کے ہاتھوں روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کی حمایت کی ہے۔

نوبل انعام یافتہ  اور میانمار کی وزیر خارجہ آنگ سان سوچی نے جاپان کے وزیر خارجہ تارو کونو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں میانمار میں فوج کے ہاتھوں ہونے والی بربریت اور سفاکیت کو مثبت قدم بتایا اور کہا ہے کہ فوج نے قانون پرعمل کیا ہے۔ سوچی نے اس سے قبل بھی روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں پر میانمار کی فوج کے مظالم اور حملوں کی حمایت کی تھی ۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کی آنگ سان سوچی کی جانب سے حمایت پر، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے صرف تنقید پر ہی اکتفا کیا ہے۔ میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام کی، اس ملک کی وزیر خارجہ کی جانب سے حمایت کے معنی یہ ہیں کہ فوج نے صوبہ راخین کو روہنگیائی مسلمانوں کے وجود سے پاک کرنے اور ان کی زمینوں اور گھروں پر قبضہ کرنے میں کامیاب طور پر عمل کیا ہے اور اس سلسلے میں فوج کی کاروائی ختم ہوگئی ہے۔

 اس کے معنی یہ ہیں کہ روہنگیا کے مسلمانوں کو ان کے آباء و اجداد کی سرزمینوں سے باہر نکالنے کے منصوبے کو، حکومت، انتہا پسند بودھشٹوں اور فوج نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا ہے اور اس وقت سوچی فخر کے ساتھ فوج کے ہاتھوں روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کا دفاع کر رہی ہے کیوںکہ وہ انتہا پسند بودھشٹوں اور فوجیوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ عالمی برادری کو سوچی سے یہ توقع تھی کہ وہ انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام میں مانع بنے گی لیکن انہوں نے انتہا پسند بودھشٹوں اور فوج کی حمایت کی ہے۔ 

لندن میں سیاسی مسائل کے ماہر ریاض کریم کہتے ہیں : روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف میانمار کی حکومت کے توسط سے ایک قوم کا صفایا، صربرنیستا کے مسلمانوں کے قتل عام کے مانند ایک قوم کا صفایا ہے۔ اس قتل عام میں صربرنیستا کے قتل عام اور نسل کشی کی تمام علامات پائی جاتی ہیں۔ روہنگیا کے مسلمان، میانمار کے فوجیوں کے ہاتھوں جن ایذاؤں اور شکنجوں کے متحمل ہوئے ہیں، وہ انتہائی دردناک ہے۔ 

ان حالات میں وہ چیز جو عالمی برادری کے لئے حیرت کا باعث بنی ہے، میانمار کی حکومت کے مظالم اور جرائم کے مقابلے میں خاموشی ہے۔ اگرچہ تمام عالمی حلقے میانمار میں روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کی تصدیق کر رہے ہیں تاہم اسے رکوانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کر رہے ہیں اور یہی امر اس بات باعث بنا ہے کہ میانمار کی وزیر خارجہ فخر کے ساتھ اپنے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کا دفاع کر رہی ہیں۔ بعض تجزیہ نگار اس کی وجہ، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی صیہونیوں کی جانب سے حمایت قرار دے رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں عراق میں سیاسی مسائل کے ماہر ابو احسان خاقانی کہتے ہیں : روہنگیائی مسلمانوں کی حمایت کرنا عالمی اداروں کا فریضہ ہے لیکن اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ ادارے منجملہ سلامتی کونسل نے اب تک میانمار کے مسلمانوں کی مدد کرنے کی غرض سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے نہ ہی مسلمانوں کے خلاف جرائم کو بند کروا سکی ہے اور درحقیقت ہم  نے اب تک مقام عمل میں عالمی اداروں سے کسی چیز کا  مشاہدہ نہیں کیا ہے کیوںکہ مسلمانوں کے قتل عام سے صیہونی سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 

بہر صورت اگر بین الاقوامی حلقے، میانمار کی حکومت پر روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کا دقت سے جائزہ لینے کے لئے دباؤ ڈالیں تو بلا شبہ روہنگیا کے مسلمانوں کی بہت زیادہ اجتماعی قبروں کا پتہ چلے گا اور اس طرح سے میانمار کی فوج کی بربریت کی مزید تصدیق ہوسکے گی جو میانمار کی حکومت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہوگی۔

ٹیگس