Jan ۳۱, ۲۰۱۸ ۱۵:۵۹ Asia/Tehran
  • بحرین میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی، آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب

بحرین کی آل خلیفہ حکومت نے اپنے بے بنیاد اور ناحق دعوے کے سلسلے میں ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بعض مغربی ممالک کی پشتپناہی اور حمایت سے اس ملک کے بزرگ مذہبی پیشوا آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کر دی اور اس ملک کے کٹھ پتلی سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کر دی

بحرین کی عدالت عالیہ نے ایسے عالم میں آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کیے جانے کے فیصلے کی توثیق کی ہے کہ یہ عظیم مذہبی شخصیت سینتالیس سال پہلے انیس سو اکھتر میں اس ملک کے آئین کی کونسل کی رکن اور شہریت سے متعلق قوانین کی تدوین کرنے والوں میں شامل تھی - اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ  آل خلیفہ کے اس ظالمانہ اقدام کی انسانی حقوق کے دعویداروں خاص طور سے برطانیہ اور امریکہ کی براہ راست اور کھلی حمایت حاصل ہے- آل خلیفہ کی کٹھ پتلی حکومت نےاکیس مئی دوہزار سترہ کو آیت اللہ عیسی قاسم کو ایک سال قید اور ان کے اثاثے ضبط کرلئے جانے کا حکم دیا تھا جس کی بحرین کی عدالت  عالیہ نے منگل کو توثیق کردی ہے- بحرین کی کٹھ پتلی عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں آیت اللہ عیسی قاسم کے لئے ایک سال قید، ان کے اور ان کے دفتر کے دو کارکنوں پر تقریبا ایک ملین ڈالر کے جرمانے اور ان کے اثاثوں کی ضبطی نیز بینک اکاؤنٹ جن میں تقریبا نو ملین ڈالر شرعی رقم ہے ، منجمد کرلئے جانے کے فیصلے کی توثیق کی ہے-

المیادین ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ عیسی قاسم اور دوسو سے زیادہ بحرینی شہریوں کی بے بنیاد دعوؤں سے شہریت سلب کیا جانا ، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی پانچویں اور پندرہویں دفعہ  سمیت مختلف بین الاقوامی قوانین اور کنونشنوں کے خلاف ہے جس کی بنیاد پر ہر شخص کو ایک شہریت رکھنے کا حق حاصل ہے اور اس دفعہ کی دوسری شق میں آیا ہے کہ کسی کو بھی خودسرانہ طور پر اس کی شہریت سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور بحرین کے آئین کی دفع سترہ میں آیا ہے کہ بحرینی شہریوں کو اس ملک سے باہر نکالنا اور انھیں بحرین واپس آنے سے روکنا ممنوع ہے - انسانی حقوق کی فعال شخصیتوں کی گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلانا آزادی بیان و عقیدہ سے روکنا ، پرامن مظاہروں اور دھرنوں کے انقعاد سے منع کرنا ، خودسرانہ طور پر گرفتار کرنا اور مخالفین کو بیرون ملک سفر سے روکنا مجموعی طور پر بحرین میں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے- علماء بحرین نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ آل خلیفہ نے فرعون کی روش اختیار کر رکھی ہے اور ملک کی عدلیہ کو شہریوں کی سرکوبی کے لئے استعمال کررہی ہے -

حکومت بحرین نے گذشتہ چھے برسوں سے عوام کے جاری اعلانیہ دھرنوں اور احتاجی مظاہروں کو کچلنے اور دبانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے - یہ پرامن مظاہرے بحرینی اکثریتی آبادی کے بنیادی حقوق اور اپنی سرنوشت کا حق حاصل کرنے کی غرض سے انجام پا رہے ہیں- ان مظاہروں اور دھرنوں کی حمایت کرنے والے ایک مذہبی پیشوا آیت اللہ عیسی قاسم بھی ہیں جنھیں آل خلیفہ حکومت کے اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا اوردوہزارسولہ میں ان کی شہریت سلب کرلی تھی جس کی اب اس ملک کی کٹھ پتلی عدالت عالیہ نے بھی توثیق کردی ہے - بین الاقوامی قوانین کے مطابق شہریت ایک عالمی موضوع ہے اور بین الاقوامی حقوق و قوانین کے مطابق خودسرانہ طور پر سلب شہریت ، جائز نہیں ہے- چونکہ آیت اللہ عیسی قاسم کے مسئلے میں ان کے خلاف دہشتگردانہ الزامات ثابت نہیں ہوسکے ہیں اور بحرینی قوانین میں خودسرانہ طور پر شہریت سلب کرنے سے روکنے کے لئے منصفانہ عمل موجود نہیں ہے اس لئے ایسا نظر آتا ہے کہ حکومت بحرین نے انسانی حقوق کے سلسلے میں بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے- بحرین کے انسانی حقوق کے ایک فعال حامی شیخ میثم السلمان نے بحرین کی عدالت عالیہ کی جانب سے آیت اللہ عیسی قاسم کی شہریت سلب کئے جانے کے فیصلے کی توثیق پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیت اللہ عیسی قاسم نے عدالت کے ساتھ کوئی بھی اشتراک عمل نہیں کیا یعنی اس کے لئے کسی حیثیت کے قائل ہی نہیں ہیں اور اس مقدمے کو پوری طرح بے بنیاد سمجھتے ہیں اور اسی لئے انھوں نے فیصلے پر نظرثانی کی کوئی اپیل نہیں کی ہے- 

افسوس کہ عالمی برادری نے بحرین کے بحران کے سلسلے میں کسی طرح کا ضروری اقدام نہیں کیا ہے اور یہ اعتراض و تنقید صحیح ہے کہ بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مخالفین کی سرکوبی کا سلسلہ عالمی برادری کی خاموشی اور بعض ممالک کی حمایت سے جاری ہے- ڈر اس بات کا ہے کہیں حکومت بحرین ، عالمی برادری کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی فوجیوں کی مدد سے کوئی ایسا اقدام نہ کرے کہ جس کے نتیجے میں حکومت مخالفین کی سرکوبی اور قتل عام مزید بڑھ جائے-حکومت بحرین ، بحرینی معاشرے کے تشخص ، عقائد ، شعائر اور دین کو نشانہ بنائے ہوئے ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ تشخص کے خلاف جنگ بحرین کی قومی سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ علاقے پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے - توقع کی جاتی ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی کنونشنوں میں طے شدہ ذمہ داریوں کے مطابق بحرین کے بحران اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے گی تاکہ اس ملک میں انسانی المیہ رونما ہونے سے روکا جا سکے-

ٹیگس