Mar ۱۱, ۲۰۱۹ ۱۵:۰۴ Asia/Tehran
  • فلسطین میں قومی وفاق حکومت کا اختتام اور نئے وزیر ا‏عظم کا انتخاب

فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد اشتیہ کو فلسطین کا نیا وزیر اعظم نامزد کیا ہے-

فلسطین کی قومی وفاق حکومت کے وزیر اعظم رامی حمداللہ نے، چالیس دن پہلے یعنی تیس جنوری کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا- فلسطین کی قومی وفاق حکومت  2014 میں تحریک فتح اور اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد تشکیل پائی تھی- رامی حمداللہ نے ایسی حالت میں اپنے عہدے سےاستعفی دیا تھا کہ عملی طور پر فلسطین کی قومی وفاق حکومت تعطل سے دوچار تھی- تحریک فتح  اور حماس نے 12 اکتوبر 2017 کو قاہرہ اجلاس میں قومی آشتی سمجھوتے پر دستخط کئے تھے لیکن ایسے حالات میں کہ حماس نے غزہ کے انتظامی امور قومی وفاق حکومت کو سونپ دیئے تھے، اس حکومت نے عملی طور پر غزہ میں اپنے وعدوں منجملہ ملازموں کی تنخواہیں دینے کے اپنے وعدے پرعمل نہیں کیا اگرچہ قومی وفاق حکومت کی ناکامی کا باعث تحریک فتح کی کارکردگی اور ایک طرح سے اس تحریک کی توسیع پسندی تھی لیکن اس تحریک نے حمداللہ کے استعفے سے قبل محمود عباس کی صدارت میں منعقدہ ایک اجلاس میں ، پی ایل او سے وابستہ گروہوں اور آزاد شخصیتوں پر مشتمل ایک حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا- اس وقت محمد اشتیہ کو ایسے میں فلسطین کے نئے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے کہ تحریک حماس جیسے دھڑوں کی اس سلسلے میں موافقت نہیں لی گئی ہے- بالفاظ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین میں اب جو نئی حکومت تشکیل پائے گی وہ تمام گروہوں کی مشارکت سے نہیں ہوگی بلکہ تحریک فتح کی محوریت میں ایک پارٹی کی حکومت ہوگی اور یہ مسئلہ فلسطین میں قومی اتفاق رائے کے خاتمے کے مترداف ہوگا

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ محمد اشتیہ کی حکومت کو تحریک فتح کے تمام اراکین کی حمایت حاصل ہوگی کیوں کہ اس تحریک کی مرکزی کمیٹی محمود عباس کے حامیوں پر مشتمل ہے اور فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ کے مخالفین، اس کمیٹی میں نہ ہونے کےبرابر ہیں- ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بعض رپورٹوں کے مطابق محمود عباس اور فلسطینی انتظامیہ امریکہ اور سعودی عرب کی ڈکٹیشن پر اس کوشش میں ہے کہ فلسطین میں تحریک حماس کو الگ تھلگ کردیں- اس سلسلے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ رامی حمداللہ کی جگہ محمد اشتیہ کو لایا جانا، غزہ میں تحریک حماس کو کنارے لگانے کی محمود عباس کی کوششوں کا تسلسل ہے۔ غزہ میں تحریک حماس کی ممتاز پوزیشن اور اہمیت کے پیش نظرحماس کو گوشہ نشیں کرنے کی کوشش، ممکن ہے فلسطینی گروہوں کے درمیان اختلافات میں اضافے اور نئی حکومت کی قانونی حیثیت کے کم ہونے کا باعث بن جائے-  

ایک اور مسئلہ بھی یہ ہے کہ محمد اشتیہ کہ جو امریکہ کی نگرانی میں ہونے والے سازباز مذاکرات میں شریک تھے، عرب ملکوں کی سفارش اور اسرائیل و امریکہ کی ایما پر فلسطین کے نئے وزیر اعظم متعارف کئے گئے ہیں- خلیج آن لائن سائٹ نے اس سے قبل لکھا تھا کہ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ  محمود عباس اس کوشش میں ہیں کہ فلسطین میں ایک ایسی حکومت تشکیل دیں کہ جسے عرب ملکوں، دنیا کے ملکوں اور حتی اسرائیل کی بھی حمایت حاصل ہو-

اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ محمود عباس نے سنچری ڈیل منصوبے پر اعتراض میں امریکہ کے ساتھ فلسطین کے تعلقات منقطع کردیئے تھے- لیکن نئے وزیر اعظم کو نامزد کرنے میں امریکہ ، اسرائیل اور سازباز کرنے والے عرب ممالک کی رائے حاصل کرنے، اور تحریک حماس کی شرکت کے بغیر ایک حکومت کی تشکیل کی کوشش کے پیش نظر، عملی طور پر اس منصوبے کا عملی ہونا آسان ہوجائے گا

تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے رہنما خالد البطش نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ فلسطینی ارمانوں پر پانی پھیرنے کی امریکی سازش سے سب سے زیادہ فائدہ جسے حاصل ہوگا وہ غاصب صیہونی حکومت ہے۔ ہم اس سازش کے انجام اور نتائج کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں ہم امت مسلمہ اور اپنی عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سازش کا سامنا کریں۔ ہم عرب معاشرے، سعودی عرب اور خلیج فارس کی دیگر عرب حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے آباواجداد کی غلطیوں کو نہ دہرائیں کہ جب انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کیساتھ اتحاد کیا تھا جس کا نتیجہ غاصب صیہونی ریاست کا قیام اور بہت سے ممالک اور حکومتوں کا زوال تھا۔ ہمیں خبردار اور ہوشیار رہنا چاہئے کہ امت مسلمہ کا دشمن ایران نہیں بلکہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والے اسلام اور امت مسلمہ کے دشمن ہیں۔

 

 

ٹیگس