Dec ۲۴, ۲۰۱۹ ۱۵:۵۰ Asia/Tehran
  • خاشقجی قتل کیس کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ

اقوم متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ترکی نے جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس سلسلے میں مکمل اور شفاف تحقیقات، اس کیس میں پائے جانے والے ابہامات کو دور کرنے اور اس قتل کے پس پردہ اصل ذمہ داروں کو سزا دیئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ جمال خاشقجی قتل کیس میں ملوث آٹھ افراد کے خلاف جاری کیے جانے والے عدالتی احکامات سے متعلق خبروں کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور سیکریٹری جنرل اینٹونیوگوترس نے اس کیس کے غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

جمال خاشقجی قتل کیس میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر ایگنس کیلیمرڈ نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے اصل قاتلوں کو چھوڑ دیا گیا ہے جو انصاف کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز بیانڈ دی بارڈرز کے سیکریٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلوآر نے بھی خاشقجی قتل  کیس کی سماعت بند عدالت میں کیے جانے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ صحافیوں کی عالمی تنظیم ایم ایس ایف اس بہیمانہ قتل کے اصل ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دیئے جانے  کا مطالبہ کرتی ہے-

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودی حکام کو بچایا گیا ہے۔

دوسری جانب ترک حکومت نے جمال خاشقجی قتل کیس سے متعلق سعودی عدالت کے فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کیس کی شفاف تحقیقات اور سماعت کا مطالبہ کیا ہے۔

ترکی کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ خاشقجی کی لاش سمیت، کیس کے اہم معاملات بدستور مبھم ہیں اور اس سے سعودیوں کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کا پتہ چلتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہماری سرزمین پر رونما ہونے والے اس جرم میں پائے جانے والے ابہامات کو دور کرنا اور اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا صرف قانونی ہی نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔

آزاد امریکی سینیٹر برینی سینڈرز نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث بعض عناصر کو سزائے موت اور عمر قید سنائے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد بن سلمان نے دیا تھا لیکن سعودی عرب کی استبدادی اور غیر قانونی حکومت نے جس  طرح سے مقدمہ چلایا ہے وہ اس جرم کو چھپانے کی کوشش ہے اور عدالتی فیصلے میں حکم دینے والے شخص کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر دوہزار اٹھارہ کو ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا تھا۔

سعودی حکومت اٹھارہ روز تک خاموش یا اس واقعے سے انکار کرتی رہی یہاں تک  کہ ترکی کی انٹیلی جینس اور سی آئی اے نے اس بات کی تائید کردی کہ جمال خاشقجی کو سعودی ولی عہد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گیا ہے۔

ٹیگس