Sep ۲۰, ۲۰۱۵ ۱۲:۱۳ Asia/Tehran
  • پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں سے خطاب
    پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں سے خطاب

دشمن کی سیاسی و ثقافتی دراندازی کے سد باب پر تاکید

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاسداران انقلاب فورس کے ہزاروں کمانڈروں سے ملاقات میں اس فورس کو اللہ کی عظیم نعمت اور داخلی و بیرونی مسائل میں اسلامی انقلاب کے آگاہ و تیز بیں شعبے سے تعبیر کیا اور اسلامی انقلاب کی حفاظت کے تقاضوں اور اس کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ دشمن انقلاب کے ختم ہو جانے کی بیجا امید میں، اثر و رسوخ بڑھانے اور خاص طور پر سیاسی و ثقافتی نفوذ کی فکر میں ہے، تاہم دشمن کی سازشوں کے ادراک، انقلابی جذبے کی تقویت و مضبوطی اور اعلی مقاصد کی تکمیل کی جانب پیش قدمی سے یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بدھ کی صبح اپنے اس خطاب میں اسلامی انقلاب کے محافظ سپاہیوں 'پاسداران انقلاب اسلامی' کے مقام اور موجودہ حالات میں اور مستقبل میں ان کے اہم فرائض کی تشریح کرتے ہوئے چار الفاظ؛ 'سپاہ، پاسداران، انقلاب اور اسلامی پر روشنی ڈالی اور ان کے لوازمات اور خصوصیات کو بیان کیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق 'سپاہ' کا مفہوم نظم و ترتیب کا حامل ادارہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس طرح سپاہ پاسداران انقلاب کے لئے اسلامی انقلاب کی حفاظت کی ذمہ داری معین کی گئی ہے، اس طرح کسی بھی ادارے اور شعبے کے لئے اسے محکمہ جاتی فریضہ قرار نہیں دیا گيا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ نئے کارآمد اور ذی فہم ارکان کی تربیت و نمو کی مدد سے کبھی کہنہ نہ ہونا اور مسلسل حیات نو حاصل کرنا سپاہ پاسداران انقلاب کے محکمہ جاتی تقاضے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اندرونی سطح پر نئے ارکان کی تربیت کے علاوہ مختلف شعبوں کو خدمت کے لئے جو عناصر فراہم کرتی ہے وہ ان شعبوں اور سسٹموں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور گہری چھاپ چھوڑنے والے افراد تیار کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کی بحیثیت ادارے اور محکمے کے ایک خصوصیت اس کی میدانی و سیاسی و ماہیتی قوت اور عزت و وقار ہے۔ آپ نے فرمایا: "سپاہ پاسداران انقلاب کی محکمہ جاتی حیثیت کی ایک اور خصوصیت نوجوان افرادی قوت کی جانب اس کا رجحان اور ساتھ ہی ساتھ پرانے اور تجربہ کار اہلکاروں کی خدمات سے بہرہ مند ہونا ہے۔" آپ نے کہا کہ یہ روش جاری رہنی چاہئے اور سپاہ پاسداران انقلاب کے اندر نسلوں کے باہمی رابطے کو ختم نہیں ہونے دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاسداری اور انقلاب کی حفاظت کے لفظ کو انقلابی جذبے، ماہیت اور شراکت کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ جب ہم انقلاب کی پاسداری کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ انقلابی ارادہ پورے استحکام کے ساتھ موجزن ہے اور انقلاب اپنی اسی قوت و اقتدار کے ساتھ زندہ اور حاضر ہے کیونکہ اگر انقلاب زندہ نہ رہے تو اس کی حفاظت کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب کی پاسداری کے مفہوم کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ پاسداری کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب کو خطرات لاحق ہیں۔ آپ نے فرمایا: "اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو انقلاب کی حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ لہذا چونکہ خطرات موجود ہیں، اس لئے ان کی شناخت بھی حاصل کی جانی چاہئے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کی ایک اہم ذمہ داری خطروں کے ادراک کے لئے مستقل بنیادوں پر داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنا ہے۔ آپ نے فرمایا: "پاسداران انقلاب اسلامی سر جھکائے دفتری کاموں کی انجام دہی میں مشغول رہنے والا ادارہ نہیں ہے، بلکہ ایک آگاہ و تیز بیں نگراں ہے جو داخلی و بیرونی مسائل سے پوری طرح باخبر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اسی حصے میں پاسداران انقلاب فورس کے انٹیلیجنس شعبے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کے انٹیلیجنس شعبے کو چاہئے کہ دائمی طور پر حالات کا جائزہ لے اور ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی انقلاب کی پاسداری کا ایک اور تقاضا دائمی ہوشیاری و بیداری ہے۔ آپ نے کہا کہ ہم نے کبھی جنگ کا آغاز نہیں کیا اور نہ کریں گے، مگر اسلامی انقلاب چونکہ ہمیشہ مخالفین اور شر پسندوں کے نشانے پر رہا ہے لہذا خطرات کی ہی سطح پر سپاہ پاسداران انقلاب کی دائمی ہوشیاری و بیداری اور آمادگی بھی بہت ضروری ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی پاسداری کے ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہوئے انقلاب کے احترام اور اس کی قدردانی پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی قدر دانی اور اس کے احترام کے لئے انقلاب کی جامع، روشن اور آگاہانہ معرفت ہونی چاہئے اور یہ معرفت سپاہ پاسداران انقلاب کے تمام شعبوں میں اور ہر سطح پر موجود ہونی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کی دشمن کی ایک روش افکار و عقائد میں شک و شبہ پیدا کر دینا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دراندازی کی اس روش کے سد باب کے لئے پاسداران انقلاب فورس کے ارکان کا اسلامی انقلاب کے بارے میں مدلل اور اطمینان بخش طرز بیان و گفتگو سے خود کو آراستہ کرنا اور انقلاب کی مستحکم منطق سے لیس ہونا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق انقلاب کی پاسداری کا ایک اور اہم تقاضہ دشمن کی شناخت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن سے مراد عالمی استکبار ہے اور اس کا مظہر کامل امریکا ہے جبکہ رجعت پسند حکومتیں اور ضعیف الارادہ افراد اس کے آلہ کار ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی پاسبانی کا تقاضا دشمن کی عملی و فکری خامیوں کی شناخت اور ان لوگوں کو قائل کرنا ہے جو دشمن کی ہنوز صحیح شناخت نہیں رکھتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد دشمن کے اندر پائے جانے والے بعض تضادات اور کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے دشمن وہ ہیں جو برسوں پہلے سے امن قائم کرنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے قیام اور آشتی کی ترویج کے نعرے کے ساتھ اس علاقے میں آئے، لیکن آج علاقے میں ان کی موجودگی کا نتیجہ بدامنی، وحشی و بے رحم دہشت گردی اور جنگوں کی بھڑکتی آگ ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ علاقے مین جمہوریت قائم کرنے کا نعرہ جو امریکیوں کی زبان سے سنائی دیتا ہے، آج خود انہیں کے لئے وبال جان بن گیا ہے گيا ہے کیونکہ اس وقت علاقے کی انتہائی رجعت پسند اور حد درجہ ڈکٹیٹر حکومتیں امریکا کی پشت پناہی و مدد کے ذریعے اپنے مجرمانہ اقدامات انجام دے رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں سپاہ اور پاسدار لفظوں کی تشریح کے بعد انقلاب کے حقیقی معنی بیان کئے۔ آپ نے انقلاب کو دائمی اور پائیدار حقیقت اور عمیق و لا متناہی تبدیلی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اغیار کے تھنک ٹینکوں کے تصور اور تبصروں کے برخلاف جسے ملک کے اندر بھی بعض لوگ دہراتے رہتے ہیں، انقلاب ختم ہونے والا نہیں ہے اور اس انقلاب کو ایسی 'اسلامی جمہوریہ' میں تبدیل کر دینا جو ان کے اپنے تصور میں ہے، ممکن نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بنیادی اہداف و نصب العین کے تعین کو کسی بھی انقلاب کا پہلا قدم قرار دیا اور فرمایا کہ یہ اہداف و اصول، وسائل اور روشوں کی طرح تبدیل نہیں ہوتے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ انقلاب کا نصب العین 'حیات طیبہ' ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ 'حیات طیبہ' میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو سعادت و کامرانی کی منزل تک ایک قوم کی رسائی کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی وقار، خود مختاری یعنی ظلم و ستم اور دنیا کی توسیع پسند طاقتوں کے تسلط سے قوم کی آزادی، عالمی سطح پر علم و تمدن کے میدان میں روحانیت کے سائے میں پیش قدمی، انصاف، رفاہ، اسلامی اخلاقیات اور اسلامی طرز زندگی کو 'حیات طیبہ' کے خصوصیات سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے مثالی معاشرے کی جانب سفر ایک دائمی پیش قدمی اور بارگاہ رب العزت میں لے جانے والی دائمی تبدیلی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی کو بھی 'حیات طیبہ' کی خصوصیات میں قرار دیا اور فرمایا کہ مغرب اپنے پروپیگنڈے میں جس کی بازگشت ڈھکے چھپے انداز میں ملک کے اندر بھی سنائی دیتی ہے، استکبار سے عوام کی نفرت کو کم کرنے کے لئے، یہ کہتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ طاغوت کی نفی بھی کرے، جبکہ اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی 'حیات طیبہ' کی بہم پیوستہ خصوصیات ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ مغرب کے موجودہ پروپیگنڈے کا ایک اور محور سفارت کاری اور داخلی سیاست سے آئیڈیالوجی کی علاحدگی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم خارجہ سیاست میں اپنے اصولوں کو دخیل نہ کریں، جبکہ فکر و عقیدہ اور آئیڈیالوجی تمام میدانوں میں فیصلہ کن مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بیرونی ممالک کے پروپیگنڈے کے تضاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ علاقے میں اسلامی جمہوریہ طاقت اور اثر و نفوذ کی حامل ہے اور دوسری جانب وہ یہ پروپیگنڈہ بھی کرتا ہے کہ انقلابی فکر و جذبے کو کنارے رکھئے تاکہ آپ کو عالمی برادری میں جگہ مل جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں آپس میں تضاد رکھتی ہیں، کیونکہ ہماری طاقت اور اثر و رسوخ ہمارے انقلابی جذبے اور عمل کی وجہ سے ہے، لہذا اگر ہم اسے ترک کر دیں گے تو ہم فطری طور پر کمزور ہو جائیں گے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ ملت ایران انقلابی فکر و جذبے کو ترک کر دے تاکہ اس کی طاقت ختم ہو جائے اور وہ مٹھی بھر توسیع پسند ملکوں کے منصوبوں اور چالوں کی بھینٹ چڑھ کر مٹ جائے، جو خود کو عالمی برادری کہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مفہوم انقلاب کے مختلف پہلوؤں اور زاویوں کا جائزہ لینے کے بعد 'سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی' کی اصطلاح کے چاروں الفاظ میں سے چوتھے لفظ یعنی اسلام کے سلسلے میں کچھ نکات بیان کئے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلام ہی انقلاب کی بنیاد اور پونجی ہے، لیکن کچھ لوگ انقلاب کے نام سے بھی خائف ہیں اور اسلامی انقلاب کہنے کے بجائے اسے 1979 کا انقلاب کہتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ خالص اسلام ہی انقلاب کا پیکر اور مضمون ہے۔ آپ نے تکفیری تنظیموں کے عامیانہ، منحرفانہ اور احمقانہ افکار کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ عقل و نقل سے مطابقت رکھنے والا اور قرآن اور پیغمبر اسلام اور اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کی تعلیمات پر استوار اسلام ہمارے انقلاب کی بنیاد ہے جسے دنیا کے تمام جدید حلقوں اور فورموں پر محکم دلیلوں کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے اور اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسلم اقوام کے دلوں اور فکروں میں اسلامی انقلاب کے گہرے اثر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ذاتی و انفرادی اعمال تک محدود اسلام، سیکولر اسلام، جہاد و شہادت سے عاری اسلام اور نہی عن المنکر سے خالی اسلام ملت ایران کو قبول نہیں ہے۔ انقلاب کے اسلام کو قرآن کی آیات میں اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وصیت نامے، تقاریر اور تحریروں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پاسداران انقلاب فورس کے اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سپاہ پاسداران انقلاب کے اندر یہ وسیع و عمیق معانی و مفاہیم مضمر ہیں، لہذا آپ کو چاہئے کہ پوری ہوشیاری کے ساتھ اور اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاسبانی کے اپنے فریضے پر عمل جاری رکھئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سپاہ پاسداران انقلاب فورس کو کمزور کرنے کے مقصد سے دانستہ یا نادانستہ طور پر کہی یا لکھی جانے والی باتوں پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اللہ کی بہت عظیم نعمت ہے اور سب کو اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس ادارے کی قدر کرنے کی پہلی ذمہ داری خود اس ادارے کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے روحانی، فکری اور عملی پیکر کے روز افزوں استحکام کے ذریعے، دوسروں کو اعتراض کا کوئی بھی موقع دینے سے شدید اجتناب، سپاہ پاسداران انقلاب کے وقار کو مجروح کرنے والے امور سے دوری اور اقتصادی، مالیاتی اور سیاسی میدانوں میں انقلاب کی راہ مستقیم پر پیش قدمی کے ذریعے آپ سپاہ پاسداران انقلاب کی شان و تشخص کی حفاظت اور قدردانی کیجئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تمام خطرات پر پاسداران انقلاب فورس کی بھرپور توجہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنے پاؤں جمانے کی دشمن کی کوشش بھی بڑے خطرات کے زمرے میں آتی ہے۔ ‏آپ نے فرمایا کہ بیشک سیکورٹی اور معیشت کے شعبے میں دشمن کا اثر و نفوذ خطرناک ہے اور اس کے بڑے سنگین عواقب ہوتے ہیں تاہم دشمن کا سیاسی و ثقافتی اثر و رسوخ بھی بہت بڑا خطرہ ہے جس سے سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافتی شعبے کو اپنے زیر اثر لانے اور عوام الناس کے فکر و عقیدے کو بتدریج تبدیل کرنے کے لئے دشمن کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سیاسی شعبے میں بھی دشمن فیصلے کرنے والے مراکز میں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو فیصلے کی زمین ہموار کرنے والے حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش میں ہے، اگر یہ سازش کامیاب ہوگئی تو ملک کی سمت و جہت، رخ اور فیصلے اغیار کے ارادے اور مرضی کے مطابق طے پائیں گے اور انھیں پر عملدرآمد ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دشمن کی چالوں کے سلسلے میں عمومی بیداری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ قوم اور نظام پر غفلت طاری ہو تاکہ وہ اپنے اہداف پورے کر لیں، لیکن عوام اور حکام، ملت کے گہری نیند سو جانے کی دشمن کی یہ آرزو پوری نہیں ہونے دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ملک کے اندر انقلابی طرز فکر اور جذبے کی بنیادوں کو اس طرح مستحکم بنا دینا چاہئے کہ کوئی بھی چیز اس درخشاں سفر کے تسلسل میں خلل نہ ڈال سکے، یہ تمام ممتاز شخصیات کا بنیادی فریضہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ماہ ذی الحجہ کی اہمیت و منزلت کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو اس باشرف مہینے کے شب و روز اور بالخصوص عرفہ کے عظیم دن کے تمام لمحات سے کما حقہ مستفیض ہونے کی سفارش کی اور فرمایا کہ یوم عرفہ کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے اور اس دن کی پرمغز دعاؤں کو فکر و تدبر کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور اس طرح زندگی کے طولانی اور دشوار سفر کے لئے زاد راہ اور ضروری توانائی و نشاط حاصل کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے سپاہ پاسداران انقلاب فورس میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سعیدی نے سپاہ پاسداران انقلاب کے اندر انجام پانے والے ثقافتی اقدامات کی رپورٹ پیش کی۔
اسی طرح سپاہ پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل جعفری نے پورے علاقے میں اسلامی مزاحمت کے محاذوں پر اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی غیبی مدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی پوری توانائی سے اسلامی انقلاب کے ثمرات، اصولوں اور اقدار کی بخوبی پاسبانی کریں گے اور اس راہ خداوندی کے مخالفوں کو ہرگز یہ موقع نہیں دیں گے کہ وہ دشمنوں کی دراندازی کا راستہ ہموار کریں۔
جنرل جعفری نے اثر و رسوخ قائم کرنے کی غرض سے دشمن کی طرف سے اختیار کی جانے والی نئی نئی چالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کے نئے حربوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں سپاہ پاسداران انقلاب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اپنے میزائلوں کی طاقت اور صحیح نشانے کی درستگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلامی اہداف اور انقلاب کے مطلوبہ مقاصد کی رینج بڑھانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم پورے اعتماد کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ کسی بھی دور میں ایران کے پاس ایسی دفاعی قوت و توانائی اور مختلف سماجی میدانوں میں کام کے لئے آمادہ افرادی قوت نہیں تھی جیسی آج موجود ہے۔

ٹیگس