آسٹریا کے صدر کی رہبرانقلاب اسلامی سے ملاقات
Sep ۱۲, ۲۰۱۵ ۱۳:۲۶ Asia/Tehran
آسٹریا کے صدر ہانس فیشر نے اپنے وفد کے ہمراہ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی اس دشمنی کا سبب یہ ہےکہ ایران میں اس کے مفادات اسکے ہاتھوں سے چھن چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بعض یورپی ملکوں کا ایران کے تعلق سے امریکہ کی مخاصمانہ پالیسیوں کی پیروی کرنا غیر منطقی ہے۔رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں جو منگل کوعصرکے وقت انجام پائي فرمایا کہ البتہ آسٹریا ان ملکوں میں سے نہیں ہے اوردونوں
ملکوں کے حکام کے لئے ضروری ہے کہ تعلقات کو بہتر بنانے کےلئے منصوبہ بندی کریں
اوراس کو آگے بڑھاتے رہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
نے مستقبل میں ایران اور یورپی ملکوں کے تعلقات کے بارے میں آسٹریا کے صدرکے سوال
کے جواب میں کہا کہ اب تک یورپی حکومتوں کی طرف سےکچھ باتیں سامنے آئی ہیں لیکن ان
باتوں کے عملی شکل اختیارکرنے کا انتظارکرنا ہو گا۔
اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی نے جو کہا ہے اس میں کئي اہم نکات پائے جاتے ہیں جن پرگہرائی سے
غور کرنے سے ایران اور یورپی یونین کے تعلقات میں بہت سی غیر ضروری مشکلات کی
گرہیں کھل جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے گذشتہ ایک دہائي میں ایران کے ایٹمی
پروگرام کے شفاف نہ ہونے کا بہانہ بنا کر
ایران کے خلاف دشمنانہ اقدامات کرتے ہوئے اس کے خلاف غیر منصفانہ پابندیاں
لگائيں اور یورپی ملکوں کو بھی ایران کے
خلاف یکطرفہ پابندیاں لگانے پر مجبور کیا۔
یورپی یونین کی نظر میں شاید ان میں سے کچھ اقدامات
پابندیوں پرعمل کرنے کے سلسلے میں ان کی ذمہ داریوں کےجاری رہنے کی نشاندھی کرتے
ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئي شک نہیں ہے کہ ان اقدامات کا جاری رہنا غیر روایتی
اور غیر منطقی ہے اور ان سے یورپیوں کو کوئي فائدہ نہیں پہنچا ہے۔
یورپی یونین اس
سے قبل ایران کے تجارتی شریکوں میں سرفہرست تھی اور وہ بخوبی جانتی ہے کہ پابندیاں
دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہیں لھذا صرف ایران ہی کو پابندیوں سے نقصان نہیں
پہنچا ہے بلکہ ان پابندیوں کی شروعات کرنے والے بالخصوص یورپی ممالک کو بھی ان سے
نقصان پہنچا ہے۔ اسی بناپر اب جبکہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے
سے پابندیوں کا خول ٹوٹ چکا ہے اور ایٹمی معاہدہ ایران اور یورپی ملکوں کو جوڑنے
اور ان کے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کا سبب بنا ہے۔
یاد رہے جرمنی، اٹلی، فرانس،
اسپین، اور آسٹریا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے ایران کے معیشتی میدانوں میں واپسی
اورایران میں سرمایہ کاری کرنے کی تیاریاں کرلی ہیں ۔ فرانس کے وزیر خارجہ لوران
فابیوس یورپی حکام میں پہلی شخصیت تھے
جنہوں نے ویانا میں ایٹمی معاہدے کے بعد انتیس جولائي کو تہران کا دورہ کیا تھا
اور ان کے بعد بہت سے یورپی حکام اور اعلی سطحی وفود نے تہران کا دورہ کیا۔
ان
دوروں میں اعلی رتبہ وفد کی سربراہی میں آسٹریا کے صدر کا دورہ تہران بھی شامل ہے
جسے ایران اور یورپی ملکوں کے تعلقات کے سلسلے میں گفتگو کے لئے نیز مستقبل پر نظر
رکھتے ہوئے ماضی کو پیچھے چھوڑنے کا تازہ موقع قراردیا جارہا ہے۔البتہ بے شک ایران
کے بارے میں یورپی ملکوں میں سے ہر ایک کی کارکردگي اور طرز فکر تعاون کے نئے دور
پر اثرات چھوڑے گي۔
نئے دور میں تہران اور ویانا کے تعلقات دیگر یورپی ملکوں سے
مختلف ہوسکتے ہیں کیونکہ آسٹریا کی کارکردگي الگ ہے۔
ہرچند سیاسی تعلقات میں اقتصادی
تعاون کے برخلاف نظریات یکساں نہیں رہتے لیکن مشترکہ نکات سے استفادہ کرتے ہوئے
باہمی تعاون کے لئے متعدد میدانوں اوروسیع توانائيوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ایران
اورآسٹریا کے درمیان وسیع مشترکہ مفادات پائے جاتے ہیں بالخصوص دونوں ممالک
اقتصادی میدان میں مختلف طرح سے تعاون کرسکتے ہیں۔
بلاشک دونوں ملکوں میں تعاون کا
نیا دوراقتصادی تعاون کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں ایسے امور میں تعاون کا
موقع فراہم کرے گا جو علاقے کے اہم ضرورت ہیں بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ ویانا میں
بعض عالمی اداروں کے مراکزموجود ہیں۔