شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے لیے امریکہ کا نیا اقدام
-
شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے لیے امریکہ کا نیا اقدام
شام میں دہشت گردوں کہ جنھیں علاقے کے عرب ممالک اور ان کے مغربی اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے، کے ٹھکانوں پر روس کے شدید ہوائی اور میزائل حملوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ان گروہوں کو مضبوط کرنے کے اقدام +پر مجبور کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں سی این این چینل نے امریکہ کے فوجی حکام کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے شامی حکومت کے مخالفین کو بڑی مقدار میں فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پچاس ٹن فوجی سازوسامان شام کے صوبے حسکہ میں دہشت گرد گروہوں تک پہنچایا ہے کہ جس میں ہلکے ہتھیار اور دستی بم شامل ہیں۔
ہتھیاروں کی یہ کھیپ اتوار کے روز امریکہ کے فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں c-17 کے ذریعے شامی حکومت کے مسلح مخالفین تک پہنچائی گئی ہے۔ شامی حکومت کے مخالف گروہوں کے کارآمد نہ ہونے اور امریکہ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو نمایاں کامیابیاں حاصل نہ ہونے کی وجہ سے شام کے بارے میں باراک اوباما کی پالیسی پر اگرچہ بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے لیکن اوباما حکومت ابھی تک ان گروہوں کی حمایت کر رہی ہے۔
واشنگٹن کا یہ دعوی ہے کہ اس نے فوجی سازوسامان کی یہ کھیپ داعش کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کو فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے بھیجی ہے اور یہ کھیپ "شامی عرب اتحاد" نامی گروہ نے وصول کی ہے کہ جس کی بشار اسد حکومت کے خلاف امریکہ حمایت کر رہا ہے۔
پینٹاگون نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ شامی حکومت کے مخالف گروہوں کے کارآمد ثابت نہ ہونے کی بنا پر انھیں تربیت دینے کا کام روکنا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شام کے زمینی میدان میں آنے والی حالیہ تبدیلیاں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ نہ صرف اس ملک میں طاقت کا گزشتہ توازن تبدیل ہو گیا ہے بلکہ نئی تبدیلیاں آنے سے اس وقت طاقت کا توازن شامی حکومت کے حق میں بدل گیا ہے اور یہی مسئلہ نام نہاد اعتدال پسند باغی گروہوں کی طاقت کی بحالی اور اس میں اضافے کے لیے، بعض مغربی ممالک خصوصا امریکہ کے عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات کا باعث بنا ہے۔
روس نے تیس ستمبر دو ہزار پندرہ سے شام کے صدر بشار اسد کی درخواست پر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مقامی فورسز کی مدد کے تناظر میں اس ملک میں داعش کے حلاف فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ روس کے بھرپور حملوں کی وجہ سے شام میں دہشت گرد گروہوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور ان کی پوزیشن بری طرح کمزور ہوئی ہے۔
اسی بنا پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان گروہوں کو مزید نیا فوجی سازوسامان بھیجنے کا اقدام کیا ہے۔ امریکہ نے اپنے اس اقدام کا جواز پیش کرنے کے لیے دعوی کیا ہے کہ یہ گروہ ان ہتھیاروں کو داعش کے خلاف استعمال کرے گا۔
درایں اثنا مغربی ممالک نے شامی حکومت کے مخالف نام نہاد اعتدال پسند مسلح گروہوں کے ٹھکانوں پر روس کے ہوائی حملوں پر شدید تنقید کی ہے۔ اس سلسلے میں پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اپنے اجلاس کے اختتامی بیان پرروس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بشار اسد کے مخالف ان باغی گروہوں کے خلاف اپنے حملوں اور بمباری کو روک دے کہ جو ان کے بقول انتہا پسند نہیں ہیں۔
اسی طرح یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ روس نے شام میں اپنے فوجی اقدام سے کھیل کے قواعد کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ گزشتہ چار سال کے دوران یہ مغربی ممالک اور ان کے عرب اتحادی تھے کہ جنھوں نے شام کی قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس ملک میں مسلح گروہوں کو تشکیل دیا اور پھر ان کی بھرپور مدد کی۔ بعد کے مرحلے میں بھی ان ہی میں سے ایک گروہ یعنی داعش نے عراق کے بعض علاقوں پر قبضہ اور اپنی کارروائیوں کا دائرہ مصر اور لیبیا جیسے دیگر ملکوں میں پھیلانے کی کوشش کر کے درحقیقت مغرب کی بعض ریڈلائنز کو عبور کیا۔
امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا کہ جس کا کوئی موثر اور فیصلہ کن نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس وقت جبکہ روس، شام کی قانونی حکومت کی مدد اور دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے اس ملک میں کارروائیاں کر رہا ہے تو مغرب والے کھیل کے اصول و قواعد تبدیل ہونے کا دعوی کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ مغربی ممالک ہیں کہ جنھوں نے شام کے میدان میں کسی بھی اصول و قاعدے کا خیال نہیں رکھا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امریکہ شام میں نام نہاد اعتدال پسند مسلح گروہوں کو فوجی مدد پہنچا کر شام کے میدان میں کھیل کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے باوجود شام کے میدان میں مغرب والوں کے لیے کوئی پرامید مستقبل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔