دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ناوابستہ تحریک کی توقعات
دہشت گردانہ خطرات آج ایک عالمی تشویش میں تبدیل ہو چکے ہیں اور حکومتوں کو اس مسئلے کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنا چاہئے-
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے غلام علی خوشرو نے پیر کو ناوابستہ تحریک کی نمائندگی میں دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قانونی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے سلسلے میں بڑھتی ہوئی تشویش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ ناوابستہ تحریک، دہشت گردی کے مقابلے کے بہانے اپنے اراکین کے خلاف ہر طرح کی دھمکی کو مسترد اور اس بات پر تاکید کرتی ہے کہ سامراج اور غاصبوں کے خلاف جائز جد و جہد کے حق اور دہشت گردی کو یکساں نہیں سمجھنا چاہئے-
انھوں نے کہا کہ غاصبوں کی انسانیت دشمن کارروائیوں کو دہشت گردی کی بدترین شکل سمجھنا چاہئے اور اس کی مذمت کرنا چاہئے-
دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے کے بیانات، انحرافی تحریکوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی جانب اشارہ ہیں- اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہرطرح کی دہشت گردی ایک برا اور قابل مذمت اقدام ہے اور اس کے خلاف جنگ بھی ایک ضروری امر ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عمل، دہرے رویے کے باعث اپنے اصلی مدار سے خارج ہوگیا ہے- اس انحرافی تحریک کا نمونہ، ملت فلسطین کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے جرائم ہیں- اسرائیلی حکومت، فلسطینیوں کی استقامت اور ان کی جد و جہد کو دہشت گردانہ اقدام قرار دیتی ہے لیکن اپنے جرائم کو دہشت گردوں کے مقابلے میں دفاع کا نام دیتی ہے حالانکہ فلسطین کی مظلوم قوم اپنے حقوق کے دفاع کے لئے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جد و جہد کر رہی ہے-
دہشت گردی کے بارے میں جنرل اسمبلی کی قانونی کمیٹی میں اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے کے بیانات سے اس نکتے کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو ان موضوعات سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہئے جنھیں مغرب اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جھوٹے دعوے دار پیش کر رہے ہیں-
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بالخصوص مغربی ایشیاء کے علاقے میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کے سلسلے میں سنگین تشویش پائی جاتی ہے اور اس تشویش کا کچھ حصہ بیرونی دہشت گردوں اور مغرب کے آلہ کاروں کی وجہ سے ہے جو دہشت گردانہ کارروائیوں کو بڑھاوا دینے کے لئے متعلقہ ممالک کا سفر کرتے ہیں-
اس موضوع نے اس وقت بین الاقوامی رخ اختیار کر لیا ہے- یورپی ممالک کے بہت سے حکام ، حتی امریکہ نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے اقدامات دنیا میں دہشت گردی پھیلنے کا باعث ہیں-
مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ ممالک، بین الاقوامی قانون کے تناظر میں اپنے معاہدوں پر توجہ دیتے تو موجودہ سطح پر دہشت گردانہ اقدامات کی زمین ہموار نہ ہوتی- دہشت گردوں کو اچھے ، برے اور اعتدال پسند گروہوں میں تقسیم کرنا اور انھیں سیاسی و مالی مدد دینا، ان کی ٹریننگ کے لئے بجٹ فراہم کرنا حتی انھیں سیاسی پناہ دینا بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کی مثالیں ہیں-
دہشت گردی کے خلاف موثر اور بھرپور جنگ کے لئے تمام حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور دہشت گردی کے ذمہ دار افراد کے تعاقب اور ان کی حوالگی سمیت لازمی اقدامات انجام دیں-
یہ وہ مطالبہ ہے جس پر اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے نے ناوابستہ تحریک کی نمائندگی میں تاکید کی اور تمام حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے اندر یا بیرون ملک ، دہشت گردوں کو ہرطرح کی سیاسی ، مالی اور اسلحہ جاتی مدد فراہم کرنے اور انھیں ٹریننگ دینے سے اجتناب کریں-