ایرانی وزیر خارجہ کے ایک بیان سے امریکہ اور یورپ میں ہوا سنناٹا طاری! کیا ایران نیوکلیرہتھیاروں کی سمت مڑ جائے گا؟
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر مغرب اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ لگانے کی دھمکی دیتا رہا تو ایران کا نیوکلیر ڈاکٹرائن ممکنہ طور پر ہتھیاروں کی سمت میں مڑ جائے گا۔
سحرنیوز/ایران: انگریزی اخبار گارڈین نے پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کی غیر ملکی صحافیوں سے ملاقات کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عراقچی نے جنیوا میں ایرانی اور یورپی مذاکرات کاروں کی ملاقات سے قبل صحافیوں سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا ملاقات برین اسٹرومنگ تھی جس میں دیکھا گیا کہ اس تعطل سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اس ملاقات کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور انہیں یقین نہیں کہ آیا ایران معقول عناصر سے بات کر رہا ہے؟ عراقچی نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر مغرب اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ لگانے کی دھمکی دیتا رہا تو ایران کے اندر جوہری بحث ممکنہ طور پر (جوہری) ہتھیار رکھنے کی طرف مڑ جائے گی۔
ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ ایران کے پاس پہلے سے ہی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی ہے لیکن یہ مسئلہ ملک کی سلامتی کی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ بورڈ آف گورنرز کی حالیہ قرارداد کے بعد ایران نے ہزاروں نئے اور انتہائی جدید سینٹری فیوجز کو فنکشنل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان مشینوں میں گیس انجیکشن کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور یہ دباؤ کا نتیجہ ہے۔
سید عباس عراقچی نے یہ اطمینان دلاتے ہوئے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے دائرہ میں ہے اور تعاون جاری رکھے گا، کہا کہ ہم فی الحال اپنے فیصلے کے مطابق 60 فیصد سے زیادہ افزودگی نہیں کر رہے مگر میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ ہم نے اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے تعاون کی راہ کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ ایران نے روس کو بیلسٹک میزائل نہیں دیئے۔ تہران کا ماسکو کے ساتھ فوجی تعاون ایک طویل عرصے سے موجود ہے اور مکمل طور پر جائز ہے اور ایران یوکرین کی علاقائی سالمیت کا حامی ہے۔
عراقچی نے واضح کیا کہ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی محاذ ہمارے پراکسی گروپ نہیں ہیں۔ ہم صرف دوست کے طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے ہم نے ان کو یا خطے کے کسی دوسرے مزاحمتی گروپ کو کبھی کوئی ڈکٹیشن نہیں دیا۔ وہ اپنے فیصلے بھی خود کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں پر عمل درآمد بھی خود کرتے ہیں۔ آخر میں وزیر خارجہ نے کہا کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی اسرائیل کی مکمل ناکامی ہوگی۔ وہ حماس کو تباہ کرنے کے لیے وہاں گئے تھے اور اب انھیں حماس کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لیے غزہ میں جنگ بندی ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔