Oct ۲۸, ۲۰۱۵ ۱۸:۱۳ Asia/Tehran
  • داعش کے خلاف امریکہ کی زمینی فوجی کارروائی کا امکان
    داعش کے خلاف امریکہ کی زمینی فوجی کارروائی کا امکان

دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں شامی فوج اور دمشق کے سیاسی و فوجی اتحادیوں کی کامیاب کارروائیوں کے آغاز کے چند ہفتے بعد امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ میں زمینی فوجی دستے بھیجنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر اور آرمی چیف جوزف ڈانفورڈ نے سینیٹ کے اجلاس میں داعش کے خلاف براہ راست زمینی کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ جوزف ڈانفورڈ نے امریکہ کے اعلی ترین فوجی عہدیدار کی حیثیت سے کہا کہ اگر داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فوجیوں کی شرکت سے اس گروہ کی شکست کا امکان بڑھ جائے تو وہ عراقی فوج کے شانہ بشانہ امریکی فوجیوں کے لڑنے کی تجویز کا جائزہ لیں گے۔

عراق یا شام میں داعش کے خلاف زمینی جنگ میں امریکی کی ممکنہ شرکت کی بحث اس وقت چھڑی کہ جب شامی فوج نے اپنے علاقائی اتحادیوں کی مدد سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ عراقی حکومت کے بعض عہدیداروں نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ شام میں روس نے داعش کے خلاف جس طرح شامی فوج کا ساتھ دیا ہے اسی طرح وہ عراق میں بھی داعش کے خلاف عراقی فوج کا ساتھ دے گا اور داعش کے خلاف فضائی کارروائیاں کرے گا۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب گزشتہ ایک سال کے دوران شام میں مغربی اور عرب اتحاد کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ بعض رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن افراد کو امریکی فوج نے تربیت دی جب ان کا سامنا داعش اور اس کے اتحادیوں سے ہوا تو وہ جلد ہی ان سے شکست کھا گئے یا دہشت گردوں کے ساتھ مل گئے۔

اس وقت ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس بات کے پیش نظر کہ مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں کہیں پیچھے نہ رہ جانے وہ روس، عراق، ایران اور شام کے تعاون کے مقابل، ایک بار پھر علاقے میں اپنی زمینی فوج بھیجنا چاہتا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کا تجربہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کا مسئلہ امریکی فوجیوں کی عدم موجودگی نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا متضاد اور دوغلا رویہ ہے جو حالات کے مزید پیچیدہ ہونے کا باعث بنا ہے۔ مثال کے طور پر مغرب نے عراق پر قبضے اور شام میں احتجاج سے غلط فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں جو اقدام انجام دیا اس کی وجہ سے داعش دہشت گرد گروہ وجود میں آیا۔

داعش نے جب تک مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا تھا اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی واضح اور ڈھکی چھپی حمایت حاصل تھی۔ حتی کہ موصل شہر پر قبضہ کرنے اور عراق اور شام کے نہتے عوام کے خلاف داعش کے ہولناک جرائم کے بعد کہ جن کی بنا پر امریکہ نے دکھاوے کے لیے ہوائی حملے کیے، واشنگٹن نے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کی۔

ایک طرف امریکی طیارے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے تھے اور دوسری جانب وہ انھیں ہتھیار بھی فراہم کر رہے تھے اور سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے امریکہ کے علاقائی اتحادی مختلف شکلوں میں اس دہشت گرد گروہ کی مدد وحمایت کر رہے تھے جس کی وجہ سے اس گروہ نے گزشتہ ایک سال کے دوران عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔

اس بنا پر اگر داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کے زمینی دستے بھی شامل ہو جائیں اور دہشت گردی کے خلاف متضاد اور دہری پالیسیاں بھی جاری رہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادی انتہا پسندوں کی مالی اور فوجی مدد بھی جاری رکھیں تو موجودہ صورت حال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔

عراق اور شام دونوں ملکوں میں حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف عوامی رضاکار فورس تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عراقی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے ہاتھوں تکریت شہر کی آزادی اور شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کی حلب کی جانب پیش قدمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہ عراقی اور شامی فوجیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

ان حالات میں دہشت گردوں کی حتمی شکست کو جس چیز نے دشوار اور مشکل بنایا ہے وہ علاقے میں امریکی فوجیوں کی عدم موجودگی نہیں بلکہ داعش کے خلاف مغربی اور عرب اتحاد کی متضاد اور مبہم کارکردگی ہے۔

ٹیگس