میانمار کے قومی انتخابات اور مغرب کے دوہرے معیار
میانمار کے قومی انتخابات کے انعقاد میں آٹھ دن باقی رہ گئے ہیں لیکن اعلان کیا گیا ہے کہ مسلماں ان انتخابات میں شرکت نہیں کر سکیں گے ۔
گزشتہ ایک ماہ سے مختلف خبری ذرائع خاص کر مغربی میڈیا اس بات کا پروپیگنڈا کررہا تھا کہ میانمار کے حالیہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ماحول میں منعقد ہونگے جس میں اس ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور تمام قومی،لسانی اور نسلی گروہ شرکت کریں گے ۔اس حوالے سے او آئی سی اور بعض شہری و سماجی تنظیموں نے رائے عامہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ میانمار میں جن مسلمانوں کے پاس مخصوص الیکشن کارڈ ہونگے وہ نو نومبر کے انتخابات میں شرکت کے اہل ہوںگے ۔
تاہم میانمار کے قومی محاذ کی اہم جماعت اور اصل اپوزیشن پارٹی قومی جمہوری پارٹی جسکی قیادت آنگ سان سوچی کے پاس ہے نے انکشاف کیا ہے کہ روہنگیا کے لاکھوں مسلمان شہری قومی اور نسلی بنیادوں کی وجہ سے نہ تو انتخابات میں شرکت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے امید وار کو ووٹ دے سکتے ہیں ۔ یہاں تک کے جو مسلمان الیکشن کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں انہیں بھی انتخابات میں شرکت کرنے والی کسی سیاسی جماعت نے کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔
اس سارے سناریو میں سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ آنگ سان سوچی کی پارٹی بھی ان جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہے جو مسلمانوں کی انتخابات میں شرکت کے مخالف ہیں۔انکے اس موقف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی میانمار کی دیگرانتہا پسندقوم پرست پارٹیوں اور گروہوں کی طرح مسلمانوں کو سیاسی اور قومی زندگی سے مکمل طور پر الگ کرنے کے طے شدہ پروگرام میں شریک تھیں۔سان سوکی نے موجودہ انتخابات میں قومی اور علاقائی حلقوں میں ایک ہزار ایک سو اکاون امیدوار کھڑے کئے ہیں لیکن ان میں ایک امیدوار بھی مسلمان نہیں ہے ۔ اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا ہے کہ سوکی نے اپنی پارٹی کی مضبوطی اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے کے لئے مسلمانوں کی حمایت کے تعلق سےکوئی بھی اقدام انجام نہیں دیا ہے ۔اس سے پہلے بھی وہ صدارتی انتخابات میں شرکت کے لئے مسلمانوں کے حقوق کو مکمل طور پر نظر انداز کرچکی ہیں۔ان اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ سوچی کی سیاست اور کارکردگی بودہسٹوں اور اپنے مسلک کے پیروکاروں کے گرد گھومتی ہے ۔
دوسری طرف حکمران جماعت نے جس کی مرکزی قیادت بظاہر غیر فوجی افراد پر مشتمل ہے سوکی کے لئے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے میدان مہیا کردیا ہے کیونکہ مغرب بالخصوص امریکی حکام محترمہ سوچی کوجمہوریت اور آزادی کی علامت قرار دیتے ہیں لہذا انکے خلاف کسی قسم کے دباؤ کو چاہے وہ سول حکومت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو جمہوریت اور آزادی کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور مغرب کی طرف سے اس پر فوری ردعمل سامنے کا امکان ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ ایسی حالت میں ہے کہ مغرب اور امریکہ کو میانمار میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی اور اس پر ان کا کسی قسم کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا۔اس حوالے سے مغرب کو اسطرح کے معاملات میں نسل پرستی اور تعصب کا اصلی ذمہ دار قراد دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ پارٹی جو ملک میں مغرب کی مداخلت کا راستہ ہموار کرے اور مغرب کے مفادات کا ساتھ دے مغرب اس کی مکمل حمایت کرتا ہے لیکن میانمار کے مسلمان جنہوں نے بغیر کسی تشدد اور انتہائی پرامن انداز سے اپنے جائز حقوق کے لئے اپنی جدو جہد شروع کررکھی ہے اور اسکو بودھسٹوں کی طرف سے شدید تشدد اور سرکوبی کا نشانہ بنایا جاتا ہے مغرب اسکو انسانی حقوق کی خلاف وززی نہیں سمجھتا۔ میانمار میں اسی سناریو کو دہرایا جارہا ہے ۔میانمار کی حکومت دعوے کررہی ہے کہ حالیہ انتخابات اس ملک کی گذشتہ پچیس سالہ تاریخ کے منصفانہ ترین انتخابات ہیں لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ اس میں ایک مسلمان امیدوار بھی شامل نہیں ہے ۔بہرحال میانمار کے حوالے سے محترمہ سان سوکی سب سے زیادہ میانمار کے سیاسی اتار چڑھاؤ سے آگاہ ہیں وہ اور انکی جماعت 1990 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی تھیں لیکن اس ملک کی فوج نے طاقت کے بل بوتے پر ان کی جماعت پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کردی تھی آج وہی تاریخ میانمار کے مسلمانوں کے خلاف دہرائی جارہی ہے ۔