شام کی جنگ اور امریکہ
کئی مہینوں کے پس و پیش کے بعد آخر کار امریکی صدر نے بری فوج شام بھیجنے کا فرمان جاری کر ہی دیا-
باراک اوباما کے فرمان میں آیا ہے کہ امریکہ کی اسپیشل بری فورس کے پچاس اہلکار شام بھیجے جائیں گے تاکہ جیسا کہ وہائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ نام نہاد اعتدال پسند مخالفین کو ٹریننگ دی جائے - امریکی حکومت، بشار اسد کے مخالفین کو ٹریننگ دینے پر کافی تاکید کر رہی ہے تاکہ شام میں بری فوج بھیجے جانے کا شبہ برطرف کر دے-
اس کے باوجود ماضی کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے جنگی علاقوں میں ٹریننگ کے لئے فوجیوں کا بھیجنا آخر کار فوجی کارروائیوں میں شامل ہونے پر متنج ہوا ہے- اسی بنا پر وہائٹ ہاؤس کے حالیہ فیصلے کو شام میں زمینی جنگ میں شامل ہونے سے تعبیر کیاجا رہا ہے-
امریکی حکام کی نگاہ میں شام کی سیاسی و فوجی صورتحال کچھ اس طرح آگے بڑھ رہی ہے کہ اس جنگ میں بالواسطہ مداخلتیں جاری رہنے کے امکان یا فضائی حملوں پر تاکید کو ناممکن بنا دیا ہے-
گذشتہ ہفتے تک شام میں امریکہ کی اسٹریٹیجی ، داعش کے خلاف فضائی حملے جاری رکھنے اور نام نہاد اعتدال پسند مخالفین اور فری سیرین آرمی کو ٹریننگ دینے پر استوار تھی - اوباما اور ان کے مشیروں کو امید تھی کہ اس اسٹریٹجی کو اختیار کرنے سے ایک طرف شام میں بشار اسد کی سربراہی میں قائم سیاسی نظام سقوط کر جائے گا اور دوسری جانب داعش یا جبھۃ النصرہ جیسے دہشت گرد اور انتہاپسند گروہ کچل دیئے جائیں گے-
اس کے باوجود گذشتہ مہینوں میں نہ صرف یہ کہ شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کو داعش دہشت گردوں کے مقابلے میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے بلکہ شام میں روسی فوجیوں کی کارروائی سے طاقت کا توازن دمشق کے حق میں تبدیل ہوگیا ہے- اس صورت حال نے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے -
اوباما جو ایک طویل عرصے تک شام پر امریکہ کی لشکرکشی کے حامیوں کے دباؤ کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے آخرکار پسپائی اختیار کرلی اور اسپیشل فورس کے پچاس اہلکار شام روانہ کردیئے- اس کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دسیوں ہزار فوجی، نیم فوجی اور دہشت گرد کہ جو شام میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں ، کیا پچاس امریکی فوجی ، موجودہ حالات کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفاد میں تبدیل کر سکیں گے؟
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس وقت فضا میں داعش پر مکمل برتری حاصل ہے- امریکی لڑاکا طیارے گذشتہ ایک برس سے داعش کے ٹھکانوں پر بار بار حملے کر رہے ہیں اس کے باوجود یہ فضائی برتری ، زمین پر امریکہ کی کامیابی کا باعث نہیں بن سکی ہے- شام میں امریکہ کی اب تک کی اسٹریٹیجی کی کمزوری، داعش کی پیشقدمی کے مقابلے میں جنگجو جوانوں کا فقدان رہا ہے- دوسری طرف داعش اور دہشت گردی کے مقابلے میں امریکی پالیسی واضح نہیں ہے اور داعش کے مقابلے میں امریکہ کے پاس کوئی مضبوط عزم بھی دکھائی نہیں دیتا-
شام کے سیاسی نظام سے دیرینہ دشمنی اور ترکی، عربی اور اسرائیلی لابی کے زیراثر ہونے کے باعث واشنگٹن داعش کے مقابلے میں واحد مضبوط و پائیدار طاقت یعنی شامی فوج کو دشمن سمجھتا رہا ہے- شام کے نام نہاد اعتدال پسند مخالفین کے عسکری گروہوں نے بھی گذشتہ چار برسوں کے دوران ناکامی کے سوا کوئی کارنامہ پیش نہیں کیا ہے-
اس بنا پر بعید نظر آتا ہے کہ حتی شام کے اندر ان کی ٹریننگ بھی مشرق وسطی کے اس اہم علاقے میں امریکہ کی پانچ سالہ ناتوانی کے زخم کے لئے مرہم بن سکے گی- لہذا شاید آخرکار امریکی حکومت سیاسی و فوجی تحفظات کو نظر انداز کر کے بڑے پیمانے پر شام کی جنگ میں کود پڑے، کہ جو امریکی عوام کے لئے عراق جنگ جیسے مسائل کھڑے کرد ے۔ مگر یہ کہ یہ اقدامات بحران شام کے فریق ممالک کی شرکت سے ویانا اجلاس جیسے علاقائی صلاح و مشوروں اور داعش دہشت گردوں کے خلاف عالمی اتفاق رائے سے مکمل ہوں-