علی اکبر صالحی کا دورہ جاپان، ایٹمی سیکورٹی کے لیے تعاون سے پگواش کانفرنس میں شرکت تک
Nov ۰۱, ۲۰۱۵ ۱۷:۵۳ Asia/Tehran
اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی ایٹمی تعاون کے بارے میں گفتگو اور جاپانی حکام سے ملاقات کے لیے اتوار کے روز ایک وفد کے ہمراہ ٹوکیو گئے ہیں۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمال وندی نے اس دورے کے مقاصد اور پروگراموں کے بارے میں کہا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران جاپان اور ایران کے ایٹمی سیکورٹی شعبے سے تعلق رکھنے والے وفود نے تہران اور ٹوکیو کے دورے کر کے ایٹمی سیکورٹی سمیت مختلف شعبوں میں ایٹمی تعاون کے بارے میں مذاکرات کیے ہیں اور اس دورے کے دوران اسی سلسلے میں مذاکرات کیے جائیں گے۔ایٹمی سیکورٹی ایسے اصول و قواعد اور علوم کا مجموعہ ہے کہ جن کا ایٹمی تنصیبات و مراکز اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق سرگرمیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے خیال رکھا جانا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی توانائی کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ایک ایٹمی امن مرکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جاپان کے ایٹمی ماہرین ایٹمی اسٹریٹیجی سیکورٹی نقشے کی تیاری کے کام میں ایران کی مدد کریں گے۔
اس سلسلے میں مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ایران کی مدد و حمایت کے لیے بعض اقدامات پیش نظر رکھے گئے ہیں اور اس سمجھوتے پر ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ قریبی تعاون اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کے دائرے میں عمل کیا جائے گا۔
ماہرین کو بھیجنا اور ایٹمی سیکورٹی مراکز قائم کرنے میں مدد دینے کے اقدام کے طور پر تربیتی پروگرام پیش کرنا اس سلسلے میں ایران اور جاپان کے دو طرفہ سمجھوتے کا ایک حصہ ہے۔ لیکن علی اکبر صالحی کے دورہ جاپان کا ایک اور مقصد بھی ہے۔
اس دورے کے موقع پر پوری دنیا کے ایٹمی سائنس دانوں اور ماہرین کی کانفرنس بھی ہو رہی ہے۔ پگواش کے نام سے ہونے والی یہ کانفرنس جاپان کے شہر ناگاساکی میں منعقد ہو رہی ہے جس میں ایٹمی اور دیگر مہلک ہتھیاروں کو کم اور ختم کرنے کے سلسلے میں کوشش کی جائے گی۔
اس بین الاقوامی کانفرنس میں امریکہ اور روس کے حکام سمیت دنیا کے تقریبا چالیس ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ این پی ٹی معاہدے پرعمل درآمد نہ ہونے پرعالمی تشویش ان اہم موضوعات میں شامل ہے کہ جن کا اس بین الاقوامی کانفرنس میں جائزہ لیا جائے گا۔
پگواش کانفرنس کی بنیاد انیس سو ستاون میں سرد جنگ کے زمانے میں برطانوی ماہر فزکس جوزف روٹ بلیٹ اور بعض جنگ مخالف سائنس دانوں نے رکھی تاکہ کانفرنسوں کے انعقاد کے ذریعے ایٹمی ہتھیاروں کو کم کرنے اور مہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کام کیا جائے۔
ایٹمی ترک اسلحہ کے بارے میں کی جانے والی کوششوں کو مئی کے مہینے میں اقوام متحدہ کی این پی ٹی جائزہ کانفرنس کے بے نتیجہ رہنے کے بعد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ناگاساکی کانفرنس کے منتظمین اس وقت کہ جب امریکہ کی جانب سے جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی بمباری کو ستر سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ایک بار پھر ایٹمی خطروں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کی ضرورت کی یاد دہانی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ رائے عامہ کی توجہ ایٹمی ہتھیاروں کی غیرانسانی ماہیت کی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس قسم کے ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے نئے قدم اٹھائیں گے۔
اس وقت ہزاروں کی تعداد میں تیار شدہ ایٹمی وارہیڈز، ان ہتھیاروں کو رکھنے والوں سمیت کرہ زمین پر رہنے والوں کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ برطانیہ اور فرانس سمیت ان ہتھیاروں کو رکھنے والے ممالک ان کو جدید بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔
ماضی سے لے کر آج تک تلخ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار انسانیت کے لیے بدستور ایک ڈراؤنا خواب ہیں اور اس ڈراؤنے خواب سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا اور ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کی حمایت ہے۔