اوباما کی جانب سے ایران کے سلسلے میں ہنگامی حالت کے قانون کی مدت میں توسیع
-
اوباما کی جانب سے ایران کے سلسلے میں ہنگامی حالت کے قانون کی مدت میں توسیع
وہائٹ ہاؤس نے ہر سال کے معمول کے مطابق منگل کو ایران کے حوالے سے ہنگامی حالت کے قانون کی مدت میں توسیع کردی ہے-
یہ ہنگامی حالت انیس سو اناسی کے بعد سے نافذ ہے اور ہر سال امریکی صدور اس کی مدت میں توسیع کرتے ہیں-
اس سلسلے میں امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ یہ وہ توسیع ہے جو ہرسال انجام پاتی ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کا جینیوا مذاکرات سے بھی کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے- امریکی عہدیدار نے کہا کہ سابقہ ہنگامی حالت کی مدت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے لیکن ہمیں سابقہ ہنگامی حالت کی مدت ختم ہونے سے پہلے اس میں توسیع کرنا تھا-
چارنومبر انیس سو اناسی میں تہران میں امریکی سفارت خانہ جو جاسوسی کا اڈہ بن چکا تھا، پر قبضے کے بعد سات نومبر انیس سو اسی سے ایران اور امریکہ کے تعلقات پوری طرح ختم ہوگئے - ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم ہونے کے حکم کی ہرسال توثیق کرنی پڑتی ہے-
اوباما نے کانگریس میں ایک مراسلے میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ابھی معمول کی حالت میں بحال نہیں ہوئے ہیں کہا ہے کہ اسی بنا پر ضروری ہے کہ ایران کے سلسلے میں اعلان شدہ ہنگامی حالت جاری رہنی چاہئے-
کانگریس میں اوباما کے حکم نامہ درحقیقت ایک دوسرے کے متوازی روش کا عکاس ہے- پہلی روش بین الاقوامی میدان میں ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے حکومت اور کانگریس کے درمیان کام کی تقسیم کے سلسلے میں ہے اور دوسری روش ایران کے خلاف بعض پابندیاں عائد کرنے کے لئے امریکہ کے نام نہاد قانونی ہتھکنڈے کو برقرار رکھنا ہے- ایران کے سلسلے میں ہنگامی حالت کی مدت میں توسیع کا مقصد و معنی ایران کو خطرہ ظاہر کرنا ہے-
امریکہ اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے لئے جس ہتھکنڈے کو استعمال کر رہا ہے وہ ایران کے خلاف پابندیوں کی بنیاد اور ڈھانچے کو برقرار رکھنا ہے- جبکہ جامع مشترکہ ایکشن پلان کی بنیاد پر پابندیوں کی بساط لپیٹ دینا ، گروپ پانچ جمع ایک اور امریکہ کے عہد و پیمان کا حصہ ہے- لیکن امریکی حکام عملی طور پر اس روش کے مدمقابل آگئے ہیں- وہائٹ ہاؤس کی نظر میں اس سلسلے میں اطمینان بخش چیز اسرائیل کی تائید و تصدیق کا حصول ہے- بالخصوص یہ کہ ایران کے بارے میں ہنگامی صورت حال کی مدت میں توسیع کے موقع پر وہائٹ ہاؤس نتن یاہو کا میزبان ہے اور اوباما نے ایک بار پھر صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی اور مسلسل تعاون کی اہمیت پر تاکید کی ہے-
بنا برایں یہ دیکھنا پڑے گا کہ امریکہ، جامع مشترکہ ایکشن پلان سے کہ جس کا ایک کلیدی نکتہ پابندیاں ہٹانا ہے، پر عمل درآمد سے منھ موڑنے کی پالیسی میں کس حد تک آگے جاتا ہے - امریکہ کے سفارتی اداروں کا خیال ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں کی تلوار بدستور لٹکی رہنا چاہئے-
امریکہ ، انسانی حقوق کا ڈرامہ کر کے، ایران کے خلاف الزامات اور دہشت گردی کی بحث چھیڑ کر ، اس کی میزائلی صلاحیتوں کو مشکوک بنا کر اور ایٹمی مسئلے میں جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد میں خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کرکے اسلامی جمہوریہ ایران کو خراب کرنے کے حربے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے- اس سیاسی چال سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ماضی کے اپنے قومی سلامتی کے ڈاکٹرائن کی بنیاد پر ایران کو ہرطرف سے کنٹرول کرنے کا پرانا طریقہ جاری رکھنا چاہتا ہے-
امریکی صدر باراک اوباما نے ایسے وقت میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بعد امریکہ کی اعلان شدہ پالیسی کے بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں لیکن وہ سوچے سمجھے منصوبے اور طے شدہ طریقہ کار سے امریکہ کے داخلی قوانین کی پیچیدگیوں کا حوالہ دے کر ایران کے خلاف اپنا دشمنانہ رویہ جاری رکھنے کاجواز پیش کرنا چاہتے ہیں- چنانچہ یہی مسئلہ مختلف قسم کی پابندیوں کے بارے میں بھی درپیش ہے لیکن امریکہ دوسری طرف عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران ایک ناقابل اعتماد فریق ہے- اس عمل سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کا دشمنانہ رویہ بظاہر ختم ہونے والا نہیں ہے-