نریندر مودی کا دورہ برطانیہ
ہندوستانی وزیر اعظم کا دورہ برطانیہ دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں اہم گردانا جا رہا ہے۔ نریندر مودی جمعرات کے دن تین روزہ دورے پر برطانیہ روانہ ہوئے ہیں۔ یہ دورہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی دعوت پر انجام پا رہا ہے۔
برطانوی وزیراعظم نے نریندرمودی کے برطانیہ روانہ ہونے سے قبل کہا تھا کہ یہ دورہ نئی دہلی اور لندن کے لئے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون میں توسیع کے لئے ایک سنہری موقع ہے۔ نریندر مودی نے بھی برطانیہ کے ساتھ باہمی تعاون میں تقویت کو اپنے اس دورے کا مقصد قرار دیا ہے۔
برصغیر چونکہ سنہ انیس سو سینتالیس سے قبل برطانیہ کی نوآبادیات تھا اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی تعلقات قائم رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے سیاسی مبصرین نریندرمودی کے دورہ برطانیہ کا سب سے بڑا ہدف دفاعی اور سیکورٹی تعاون کی تقویت کی کوشش کو قرار دے رہے ہیں۔
ہندوستان اپنے دو ایٹمی حریف ممالک یعنی چین اور پاکستان کے مقابلے کے تناظر میں یورپی ممالک خصوصا برطانیہ کے ساتھ فوجی اور سیکورٹی تعاون بڑھانے کے درپے ہے۔ اسلام آباد کے بھی لندن کے ساتھ اچھےتعلقات ہیں۔ اس لئے ہندوستانی حکومت نے حال ہی میں برطانیہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں انجام دینے کے سمجھوتے کے ذریعے لندن کے ساتھ اپنے سیکورٹی اور دفاعی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔
دریں اثناء ہندوستان کی حکومت کو برطانیہ کی حکومت سے یہ توقع ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھائے گی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت چونکہ ہندوستانی فوجی برطانیہ کی مدد سے کشمیر میں داخل ہوئے تھے اور وہ کشمیر کے منصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بنےتھے اس لئے نئی دہلی کو توقع ہے کہ لندن مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ہندوستانی حکومت کے موقف کی حمایت کر کے اس مسئلے کو ہندوستان کے مفاد میں حل کرے گا۔
دریں اثناء برطانیہ نے بھی حال ہی میں خلیج فارس میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے کے ذریعے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ خطے میں واپس لوٹنے کے لئے پرتول رہا ہے۔ اس طرح اس نے ہندوستان کی قوم پرست حکومت کو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کے ساتھ مزید مشاورت اور تعاون کے ذریعے حکمران جماعت بی جے پی کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
ادھر افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اثر رسوخ حاصل کرنا بھی ہندوستان کی قوم پرست جماعت کا ایک ہدف ہے۔ نریندرمودی کہ جو ہندوستان کے بعض حلقوں میں ایک تاجر کے طور جانا جاتا ہے، افغانستان میں ہندوستانی موجودگی اور اثر و رسوخ میں توسیع کے لئے کوشاں ہیں۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے افغانستان میں قیام امن و استحکام کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں برطانیہ کے سامراجی ریکارڈ کے پیش نظر ہندوستانی حکومت کو امید ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے مقابلے کے لئے افغان حکومت کےساتھ تعاون کے سلسلے میں برطانیہ کی مدد اور اس کے تجربات سے فائدہ اٹھائے گی۔
بہرحال نریندر مودی ایسی حالت میں برطانیہ کا دورہ کر رہے ہیں کہ جب ان کی حکومت نے سمندری نقل و حمل، پرائیویٹ بینکوں، تجارت ، اشیائے خورد و نوش، کیبل چینلز، ٹی وی پروگراموں ، ایف ایم ریڈیو، نیوز چینلز اور دوسرے چینلز میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ برطانیہ کے موقع پر دس ارب ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کئے جائیں گے۔ اس لئے نریندرمودی کو امید ہے کہ ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں آسانی پیدا کئے جانے کے باعث ان کے دورہ لندن کے ثمرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔