Dec ۰۷, ۲۰۱۵ ۱۵:۲۲ Asia/Tehran
  • امریکی مداخلت کے خلاف ایرانی طلبہ کا انقلابی اقدام
    امریکی مداخلت کے خلاف ایرانی طلبہ کا انقلابی اقدام

سولہ آذر مطابق سات دسمبر کا دن ایران کے بعض طلبہ کے انقلابی اقدام کی یاد دلاتا ہے اور اس دن کو یوم طلبہ کا نام دیا گیا ہے۔

ایران کے انقلابی طلبہ کے اس اقدام سے ملت ایران کی اس جد و جہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو اس نے ایران کے داخلی امور میں امریکہ کی مداخلت کے خلاف کی۔ ظالم شاہی حکومت نے ایرانی طلبہ کی اس جد و جہد کا جواب گولیوں سے دیا۔ ظالم شاہی حکومت نے امریکہ کے کہنے پر ایرانی طلبہ پر فائرنگ کی تھی اور اس فائرنگ میں تہران یونیورسٹی کے تین طلبہ شہید ہوگئے تھے۔

ایران کے داخلی امور میں امریکی مداخلت کا آغاز سنہ انیس سو پچاس کے عشرے میں ہوا تھا اور اس مداخلت کا سلسلہ اٹھائیس مرداد تیرہ سو بتیس ہجری شمسی مطابق انیس سو ترپن کو ڈاکٹر مصدق کی قانونی حکومت کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کے کودتا کے ساتھ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔امریکہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کے اس اقدام کے بعد شاہی حکومت کے ساتھ تعاون کے منصوبوں کے نام پر آسودہ خاطر ہوکر ایران کے داخلی امور میں مداخلت شروع کردی۔ اس کا خیال تھا کہ شاہی حکومت ہر طرح کے احتجاج کو طاقت کے زور سے ختم کر دے گی۔

اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور (Eisenhower) نے اٹھائیس مرداد کے کودتا کے بعد امریکی گانگریس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیکسن ایران جا رہے ہیں تاکہ وہ ایران میں آزادی اور صورتحال میں بہتری لانے کے حامیوں کی سیاسی کامیابی کے نتائج کا نزدیک سے جائزہ لیں سکیں۔

سولہ آذر مطابق سات دسمبر کے واقعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایرانی قوم کی تحریک ماند نہیں پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اقدام نے ایران کے سیاسی واقعات میں براہ راست کردار ادا کیا۔ بہت سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ کا یہ انقلابی اقدام ایران کی شاہی حکومت اور امریکہ پر اس زمانے میں ایک کاری ضرب ثابت ہوا جب ایران میں سیاسی گھٹن کا ماحول پایا جاتا تھا۔

اسی زمانے سے امریکہ کا مقصد ایران پر مکمل طور پر تسلط حاصل کرنا تھا اور اس تسلط کا راستہ بادشاہ کی حکومت کے ذریعے فراہم کیا جا چکا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ سیاسی حربوں اور اقتصادی ترقی و خوشحالی کے جھوٹے وعدے کر کے ایران میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے کوشاں تھے لیکن ان کا اصل مقصد ایران میں اپنا اثر و رسوخ حاصل کرنا تھا۔

اس واقعے کو کئی برس گزر چکے ہیں لیکن یہ دن تاریخ سے حاصل ہونے والے اس درس کی یاد دلاتا ہے جس سے امریکہ کی مخاصمانہ پالیسیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی ثابت قدمی اور استقامت کی نشاندہی ہوتی ہے۔

سولہ آذر مطابق سات دسمبر کے اس واقعے سے قبل ایرانی طلبہ نے اس جیسا کوئی اقدام انجام نہیں دیا تھا لیکن اس کے باوجود طلبہ کا یہ انقلابی اقدام بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رح کی قیادت میں چلنے والی انقلابی تحریک کی کامیابی میں بہت موثر واقع ہوا اور اس واقعے نے ایرانی طلبہ کی انقلابی تحریک میں تیزی پیدا کر دی۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ کے جاسوسی کے اڈے پر قبضہ بھی اسی طرح کے انقلابی اقدامات کا ہی نتیجہ تھا۔ اور اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایرانی جوان اور طلبہ مسائل کے تجزیئے اور دشمن کو پہچاننےکی صلاحیت کے حامل ہیں۔ یہ بیداری امریکہ کی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی ہوشیاری کا سبب بن گئی۔ اسی وجہ سے سولہ آذر جیسے واقعات اور عالمی سامراج سے مقابلے کا قومی دن تیرہ آبان ملت ایران کے نزدیک بہت گہرے تاریخی اور سیاسی مفاہیم کا حامل ہے جو کہ یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کی خود اعتمادی کی تقویت کا سبب بنا۔

ان موثر اقدامات نے ایرانی طلبہ کو ترقی و پیشرفت کے راستے پر ڈال دیا۔ اور آج اسٹوڈنٹس تخلیقی صلاحیتوں کے حامل مفید فرد ہونے کے ساتھ ساتھ انقلابی اقدامات کے پشت پناہ اور سیاسی مسائل اور حقائق سے آگاہ افرادی قوت کے ایک اہم حصے کو تشکیل دیتے ہیں۔ ایران کی تیرہ یونیورسٹیوں کا متعدد علمی ایوارڈز حاصل کرنے کی بناء پر دنیا کی عظیم یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایران اسلامی میں طلبہ نے بہت زیادہ علمی و سائنسی ترقی کی ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہوتی ہے کہ جب ہم ملت ایران کے موجودہ مقام، عزت اور خود مختاری کا اس کے ماضی کےساتھ موازنہ کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی کمانڈروں سے حالیہ ملاقات میں ملت ایران کے ساتھ دشمنی جاری رہنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے ساتھ دشمنی کی وجہ سامراجی پالیسیوں کے سامنے ملت ایران کا نہ جھکنا اور اس کا ثابت قدم رہنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ باراک اوباما کے بعض عارضی مواقف کے باوجود اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے تمام برسوں کے دوران امریکہ نے ایران کے سلسلے میں مخاصمانہ اور خود غرضی پر مبنی رویہ اختیار کئے رکھا کیونکہ امریکہ کی پالیسیاں سامراجیت اور توسیع پسندی پر استوار ہیں۔

ٹیگس