جرمن وزیر دفاع کا دورہ پاکستان
جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں پاکستانی دفاع خواجہ آصف سے ملاقات کی۔ خواجہ آصف نے اس ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے جرمنی سے مزید ہتھیار خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے مقابلے کے لئے کارگر ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔
جرمن وزیر دفاع نے بھی کہا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مزید فوجی تعاون کا خواہاں ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ داعش سے لے کر طالبان تک تمام انتہا پسند گروہوں پر حملے کئے جا رہے ہیں اور دہشت گردی کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستانی حکام کے ساتھ جرمن وزیر دفاع کے مذاکرات کے دوران زیر بحث آنےوالا دوسرا موضوع افغانستان میں امن و امان کی بری اور خراب صورتحال ہے۔
ایسا نظر آتاہے کہ نہ صرف مشرق وسطی بلکہ جنوبی ایشیا خصوصا افغانستان میں بھی دہشت گردی اور اس کا مقابلہ برلن کے حکام کے لئے بہت اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس ملک میں داعش کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر جرمن حکومت نے بھی اپنی توجہ افغانستان میں دہشت گردی کے مقابلے اور اس ملک میں اپنے فوجیوں کی حفاظت پر مرکوز کر دی ہے۔
جرمنی نے شمالی افغانستان میں واقع قندوز شہر پر طالبان کے قبضے کے بعد اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا اور تقریبا نو سو اسّی فوجی اس ملک میں روانہ کردیئے۔ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق شمالی افغانستان میں تعینات تقریبا سات سو جرمن فوجیوں کو آئندہ برس اس ملک سے چلے جانا تھا لیکن بعد میں یہ طے پایا کہ سنہ دو ہزار سولہ کے اختتام تک یہ فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔
جرمن فوجی دو سال قبل صوبہ قندوز سے نکلے تھے۔ لیکن تقریبا سات سو جرمن فوجی اب بھی مزار شریف میں تعینات ہیں جو افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔ جرمنی نے بارہا کہا ہے کہ لڑائی میں حصہ لینے کے مقصد سے اس کے فوجی کبھی بھی افغانستان واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن اب ایسا نظر آتا ہے کہ یورپی یونین کے ایک اہم ملک کے طور پر جرمنی دہشت گردی کے مقابلے کے سلسلے میں افغانستان اور پاکستان جیسے اپنے اتحادی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ تعاون نہ صرف پاکستان جیسے ممالک کو ہتھیار فراہم کرنے کی صورت میں بلکہ افغانستان میں فوجیوں کی تعیناتی کا سلسلہ جاری رکھنے کی صورت میں بھی ہے۔
جرمنی کے سیکورٹی اور دفاعی اقدامات کا یورپ میں تکفیری گروہوں خصوصا داعش کی کارروائیوں کے نتیجے میں لاحق ہونے والے خطرات میں اضافے کے تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جرمن حکام نے حال ہی میں پیرس میں ایسے دہشت گردانہ حملے دیکھے ہیں جن کی ان سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور ان حملوں میں بہت سے افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملے یورپی حکومتوں کے لئےخطرے کی گھنٹی ثابت ہوئے۔
البتہ گزشتہ برس جرمنی نے محدود پیمانے پر داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور اس نے یہ کام کرد پیشمرگہ فورس کے لئے ہتھیار بھیجنے اور ان کو ٹریننگ دینے کے ساتھ شروع کیا۔ اس سلسلے میں جرمنی نے دوسرا اقدام چار دسمبر دو ہزار پندرہ کو انجام دیا یعنی اس وقت جب جرمن پارلیمنٹ کے اکثر اراکین نے داعش کے خلاف جنگ میں فوجی شراکت کے حق میں ووٹ دیۓ۔ یوں جرمنی فوجی میدان میں دفاعی پوزیشن سے نکل گیا اور اس نے تدریجا علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے سلسلے میں زیادہ سرگرمی دکھانا شروع کر دی۔
جرمنی نے داعش مخالف اتحاد میں بھر پور سرگرمی دکھائی ہے۔ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ جرمنی کے تعاون کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔