بحران شام کے حل کے لیے ایران اور اقوام متحدہ کے صلاح و مشورے
-
بحران شام کے حل کے لیے ایران اور اقوام متحدہ کے صلاح و مشورے
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے کہا ہے کہ ایران سعودی عرب کی جانب سے ترتیب دی گئی شامی مخالفین کی فہرست کا مخالف ہے کیونکہ یہ کام ویانا معاہدے کے منافی ہے۔
حسین امیر عبداللہیان نے شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی میسٹورا سے ٹیلی فون پر بات چیت میں کہا کہ تہران اقوام متحدہ کی جانب سے ان شامی مخالفین کی فہرست پیش کیے جانے کے اقدام کی حمایت کرتا ہے کہ جو سیاسی راہ حل پر یقین رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بحران شام کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کے تناظر میں یہ اقدام ضروری ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں حالیہ دنوں کے دوران شامی حکومت کے مسلح مخالفین اور بعض دہشت گرد گروہوں کا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ اجلاس کہ جو سعودی حکومت نے شامی مخالفین کے گروہ کو متحد کرنے کے بہانے منعقد کیا تھا، درحقیقت ویانا دو اجلاس کے بیان سے تضاد رکھتا ہے۔
گزشتہ نومبر کے وسط میں ویانا میں ہونے والے اجلاس کے شرکا نے ان اعتدال پسند گروہوں کی فہرست مرتب کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ جو سیاسی راہ حل تک پہنچنے کے لیے شامی حکومت کے ساتھ آئندہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ روس اور شامی فوج کے حملے جاری رہنے سے داعش کو جو سنگین نقصان پہنچا ہے اور داعش کے قبضے سے بہت سے علاقے آزاد کرا لیے ہیں، اس کی وجہ سے سعودی عرب دفاعی پوزیشن میں آ گیا ہے۔
اس بنا پر سعودی حکام اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام کے بارے میں بین الاقوامی اجلاس کے نئے دور کے انعقاد سے قبل کہ جو آئندہ چند روز میں نیویارک میں ہو گا، شام کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات اور فیصلوں کا راستہ پہلے سے معین کردیں۔
سعودی عرب کی جانب سے شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت بھی شام کے صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے اور علاقے کو بدامنی سے دوچار کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ ریاض اجلاس کے اختتامی بیان میں اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ بشار اسد کو اقتدار سے ہٹنا چاہیے اور شام کے مستقبل میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ سعودی عرب باہر سے شامی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور النصرہ جیسے گروہوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے کہ جو القاعدہ کی ایک شاخ ہے اور حتی سعودی عرب کو بھی قبول نہیں کرتا ہے، یقینا شام میں امن کے مذاکرات میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
درحقیقت سعودی عرب شام میں عوام کے منتخب نظام کی حاکمیت کو ختم کرنے کے راستے پر قدم بڑھا رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ اسی طریقے کو استعمال کرے کہ جو اس نے یمن میں استعمال کیا ہے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ سعودی عرب شام کے سلسلے میں اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ براہ راست فوجی کارروائی کر سکے اور اسی بنا پر اس نے بشار اسد کی مخالف قوتوں کو مضبوط بنانے اور پراکسی وار پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔
سعودی عرب جس طرح خلیج فارس تعاون کونسل میں عمل کر رہا ہے اسی طرح شام کے بارے میں بھی بدستور نسلی اور مذہبی تقسیم بندی کے درپے ہے۔ اس بنا پر شام میں امن و امان کی بحالی اور داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں اور سعودی عرب کے نظریات میں بہت زیادہ فاصلہ موجود ہے۔ جبکہ شام کے مسئلے کے سلسلے میں عالمی برادری کی اہم ترین ترجیح داعش کا مقابلہ کرنا ہے۔