ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ نیویارک
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے، جو نیویارک کے دورے پر ہیں، ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیویارک کے اس دورے کا اہم ترین مقصد شام کے بارے میں گفتگو کرنا ہے اور درحقیقت یہ اجلاس، شام کے بارے میں تیسرا ویانا اجلاس ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ البتہ ہمارا خیال ہے کہ اس اجلاس کی تمام تیاریاں مکمل نہیں ہوئی ہیں تاہم اس بات کے پیش نظر کہ اجلاس تشکیل پا رہا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران بھی نیویارک اجلاس میں مختلف مسائل پر گفتگو کے لئے اپنی آمادگی کے ساتھ شرکت کر رہا ہے۔
انھوں نے اسی طرح سلامتی کونسل کے جمعرات کے روز کے اجلاس کے بارے میں، جو داعش دہشت گرد گروہ کی فنڈنگ پر پابندی لگائے جانے کے بارے میں تشکیل پا رہا ہے، کہا کہ ایک ایسا اہم ترین مسئلہ، کہ عالمی برادری کو اس وقت جس کا سامنا بھی ہے، یہ حقیقت ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ کے لئے مالی امداد کا سلسلہ، اب تک بند نہیں ہوا ہے۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ داعش کے ہاتھوں تیل کی فروخت اور داعش کے حامیوں اور غیر ملکی دہشت گردوں کا، شام و عراق جانے کا سلسلہ ابھی بدستور جاری ہے، اس لئے اس بارے میں بین الاقوامی ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال نہ کیا جاسکے۔
نیویارک اجلاس، ایسی حالت میں تشکیل پا رہا ہے کہ بعض ممالک کا بدستور یہ خیال ہے کہ وہ، انتہا پسند گروہوں اور دہشت گردی سے، اپنے مقاصد کے حصول میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جبکہ اس عمل کو مکمل طور پر روکے جانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم نکتہ، کہ جس پر ایران زور دیتا رہا ہے، یہ ہے کہ شام کے مستقبل میں تمام شامیوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ، اغیار کی مداخلت اور بیرونی دباؤ سے ہٹ کر ہونا چاہئے اور بیرونی ملکوں کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ شام کے حوالے سے وہ فرائض معّین یا اپنی کوئی شرط عائد کریں۔
ایران کا خیال ہے کہ مضبوط سفارتکاری کے ذریعے ایک ایسی راہ، تلاش کی جانی چاہئے کہ جس کے ذریعے موجودہ صورت حال کا خاتمہ کیا جاسکے تاکہ شام میں حکومت کی تشکیل اور قومی اتحاد کی سمت آگے بڑھنے کے لئے شامیوں کے درمیان سیاسی مذاکرات کی راہ فراہم کی جاسکے۔ اس وقت شام کے مسئلے میں عالمی برادری کی نظر میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ، داعش کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا جانا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس سلسلے میں تاکید کی کہ اس وقت، سب سے زیادہ اہم مسئلہ، تیل کی فروخت کے ذریعے داعش کی آمدنی اور فنڈنگ، نیز داعش گروہ میں شامل ہونے والے، نئے افراد کو شام و عراق جانے سے روکنا ہے۔
اب تک بعض ممالک، داعش کی حمایت میں شام جانے والوں کو پر امن راستہ فراہم کرتے رہے ہیں۔
مگر تیس ستمبر سے داعش دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر روس کے فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ اس دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں شامی؛ فوج کی پیش قدمی نے شام کے حالات ہی بدل کر رکھ دیئے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ روس کے فضائی حملوں اور شامی فوج کی کارروائیوں سے داعش دہشت گرد گروہ کو بھاری نقصان پہنچا ہے اور نتیجے میں اس گروہ کے زیر قبضہ، بہت سے علاقوں کو آزاد کرالیا گیا ہے اور دہشت گرد گروہ بھی اب دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں۔
اس رو سے سعودی حکام نے، دمشق مخالف بعض مسلح گروہوں کو ریاض اجلاس میں دعوت دے کر، کہ جن میں بعض دہشت گرد گروہ بھی شامل رہے ہیں، شام کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کا عمل اور فیصلے، پہلے سے طے کرنے کی کوشش کی ہے۔
جمعے کے روز نیویارک اجلاس، ایسی حالت میں تشکیل پا رہا ہے کہ گذشتہ ماہ کے ویانا اجلاس میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف مہم اور شام کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے کے لئے اس ملک میں سیاسی گروہوں کے درمیان تعاون سے متعلق کوشش کو، پوری ترجیح دی گئی تھی مگر عملی طور پر اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔چنانچہ اس بارے میں اگر اختلافات جاری رہتے ہیں تو نیویارک اجلاس کی قراردادوں اور فیصلوں سے بھی، بحران شام کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
نیویارک اجلاس کے جائزے میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے تاکید کی ہے کہ شام اور بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔جاش ارنسٹ نے کہا ہے کہ شام کے بارے میں نیویارک اجلاس، شامی فریقوں کے درمیان شدید اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کے سیاسی مستقبل سے متعلق لائحہ عمل تیاّر کرےگا۔