سلامتی کونسل میں شام کے بارے میں قرار داد
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کےبحران کا سیاسی راہ حل نکالنے کے لئے نقشہ راہ پر مبنی قرارداد کو منظوری دیدی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کےبحران کا سیاسی راہ حل نکالنے کے لئے نقشہ راہ پر مبنی قرارداد کو منظوری دیدی گئی ہے۔
جمعے کے دن نیویارک کے وقت کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس شام کو ہوا اور اس کونسل کے تمام ارکان نے قرارداد نمبر بائیس چون کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
اس قرارداد میں مذاکرات کے آغاز، جنگ بندی پر عمل درآمد، قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل اور انتخابات کرانے جیسے اہم مسائل پر تاکید کی گئی تا کہ شام کا بحران حل کیاجاسکے۔قرارداد نمبر بائیس چون میں شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ، آزادی، اتحاد اور اقتدار اعلی پر تاکید کی گئی ہے۔
اس قرارداد میں اقوام متحدہ سے درخواست کی گئی ہے کہ اس قرار داد کی منظوری کی تاریخ سے ایک مہینے کے اندر شام میں جنگ بندی کے عمل پر نگرانی کرنے کے طریقہ ہائے کار پیش کرے۔
اسلامی جمہوریہ ایران سمیت تقریبا بیس ملکوں نے نیویارک اجلاس میں یہ بھی مقرر کیا ہے کہ دوہزار سولہ کی پہلی تاریخ کو شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان مذاکرات شروع کرائے جائیں۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے مطابق شام کے عوام کی امنگوں کا احترام،بیرونی مداخلت کی مخالفت، سیاسی اھداف حاصل کرنے کے لئے دہشتگردی سے ہتھکنڈے کے طور پر استفادہ نہ کرنا اور شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہی پانچ سال سے کا بحران حل ہوسکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ شام کا بحران فوجی طریقے سے حل نہیں ہوسکتا اور بحران کو حل کرنے کے لئے سیاسی کوششوں میں لگے رہنا اور دہشتگردوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنانا ضروری ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی نظر میں شام اور اس کے مخالف دھڑوں کی گفتگو میں دہشتگردوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد شمارہ بائیس چون اگرچہ مختلف جہات سے شام کے بحران پر نظر ڈالتی ہے لیکن اس بحران کو حل کرنے کے سنگلاح راستوں پر گامزن ہونے کی شروعات ہے۔
بحران شام کے بارے میں منعقدہ نشستوں میں شریک فریق جب تک شام کے مخالفین اور دہشتگردوں کو الگ کرنے کا فیصلہ نہیں کرلیتے تو عملی طور سے شام کے مختلف گروہوں کے درمیان مذاکرات کا شروع ہونا محال لگتا ہے۔
داعش، القاعدہ، جبھۃ النصرۃ، اور احرارالشام ایسے دہشتگرد گروہ ہیں جو شام میں برسر پیکار ہیں۔
جب تک دہشتگردوں کے مقابل ایک واحد محاذ نہیں بنتا شام کے بحران کو حل کرنے کے تعلق سے نقشہ راہ کی بات کرنا بے معنی ہوگا۔شام کی فوج دہشتگردی کے مقابلے میں فرنٹ لائن میں لڑرہی ہے لہذا اس کے ساتھ مل کر ایک محاذ بنانا جو حقیقی معنی میں دہشتگردی کا مقابلہ کرے چنانچہ اگرایسے کسی محاذ میں شام کی فوج کو مرکزی کردار دیا جائے توبلاشبہ شام میں دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اورسلامتی کونسل کی قرار داد شمارہ بائیس چون میں جو نقشہ راہ کھینچا گیا ہے اس پر عمل درامد کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ یہ قرارداد دہشتگردی کے مقابلے اور سیاسی عمل کو ملکوں کی ذمہ داریوں اور شام کے عوام کی شفاف ووٹنگ کی بنیادوں پر تقویت پہنچائے گی۔ شام کے تعلق سے اجلاسوں میں شرکت کرنے والے اسلامی جمہوریہ ایران اور روس اور بعض دیگر ممالک کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی شام کے عوام کی جگہ فیصلہ کرنے کاحق نہیں ہے۔
سلامتی کونسل کی قرارداد کے معنی شام کے سیاسی عمل میں مداخلت کرنے کے نہیں ہیں بلکہ وہ محض ارضی سالمیت اور ملک کے اتحاد کی زور دیتے ہوئے شامی باشندوں کے کردار کی راہ ہموار کرے گی۔
شام کے نئے آئین کے دائرہ میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات جو آئندہ اٹھارہ مہینوں میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی منعقد ہونگے وہ اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب دہشتگردی کے خلاف حقیقی معنی میں جدوجہد اور شام کے حقیقی مخالفین کو دہشتگردوں سے الگ کرنے اور انتخابات کے دوران مکمل طرح سے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے سے ہی کامیاب ہوسکتے ہیں