ویزے کے حصول کا نیا قانون اور امریکہ کی مشکلات
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کے نام خط میں اس بات کا عہد کیا ہے کہ ویزے کے حصول سے متعلق ان کے ملک کا قانون ایران کے اقتصادی مفادات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔
جان کیری نے محمد جواد ظریف کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ واشنگٹن امریکی ویزے سے متعلق قانون میں تبدیلیوں پر اس طرح سے عملدرآمد کرے گا کہ ایران کے ساتھ دوسرے ممالک کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہوگی اور اس مقصد کے لئے اس کے پاس متعدد وسائل ہیں جن میں امریکی صدر کو اس قانون پر عملدرآمد روکنے کا اختیار بھی شامل ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر کہا ہےکہ ان کا ملک مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بنیاد پر ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر کئے گئے اپنے تمام وعدوں پر عمل درآمد کا پابند ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے امریکہ کے سنہ دو ہزار سولہ کے بجٹ پر دستخط کئے جانے کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے نام یہ خط بھیجا ہے۔
امریکی ویزے سے متعلق قانون میں آیا ہےکہ امریکہ کے اڑتیس دوست ممالک کے جن شہریوں نے سنہ دو ہزار گیارہ اور اس کے بعد چار ملکوں ایران، عراق ، شام اور سوڈان کا سفر کیا ہو ان کو امریکہ آنے کے لئے ویزے کے لئے ضروری کارروائی انجام دینا ہوگی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب دوسرے ممالک کے ساتھ ایران کے تجارتی تعاون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا مشترکہ جامع ایکشن پلان کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کا عہد کیا ہےکہ ویزے کے حصول کے قانون کے ذریعے امریکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں درج اپنی ذمےداریوں سے منہ نہیں موڑے گا۔
ان تمام باتوں کے باوجود ویزے کے حصول کا نیا قانون امریکیوں کے لئے مشکلات کا سبب بنے گا۔
سفارتی تعلقات کے اصول کے مطابق اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ مذکورہ اڑتیس ممالک بھی ایسا ہی قانون امریکی شہریوں اور دوہری شہریت رکھنے والے امریکیوں کے لئے وضع کر دیں گے۔
اس صورت میں ہزاروں امریکی شہری دنیا کے اڑتیس ممالک کا سفر کرنے کے لئے ویزے کے حصول کی مشکل سے دوچار ہوجائیں گے ان اڑتیس ممالک میں سے اکثر کا تعلق یورپ سے ہے۔
یورپی یونین نے چند دن قبل امریکی حکام کے نام ایک خط میں اس قانون کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اڑتیس ممالک کے شہریوں کو ایک ملک یعنی امریکہ جانے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تو امریکی شہریوں کو اڑتیس ممالک میں جانے کے لئے مشکلات پیش آئیں گی۔
بحر اوقیانوس کے دونوں طرف کے خطوں کے درمیان پائے جانے والے وسیع تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے پیش نظر ویزے کے حصول کی جنگ امریکہ سمیت فریقین میں سے کسی کے لئے بھی سود مند ثابت نہیں ہو گی۔
اسی لئے امریکی وزیر خارجہ نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ان کے ملک کے صدر کو ویزے کے بغیر امریکہ کا سفر کرنے سے متعلق قانون میں تبدیلی پر عملدرآمد نہ کئے جانے کے سلسلے میں کافی اختیارات حاصل ہیں۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حتی امریکی حکومت کو بھی ویزے کے حصول سے متعلق قانون کے مفید ہونے کے بارے میں شک ہے۔
امریکی کانگریس کے اراکین نے دہشت گردی کے مقابلے کے سلسلے میں امریکہ کو ایک طاقتور اور پرعزم ملک ظاہر کرنے کے مقصد سے یہ قانون منظور کیا ہے حالانکہ امریکہ نے جن اڑتیس ممالک کے ناموں کی فہرست جاری کی ہے اس میں امریکہ کے ان قریبی اتحادی ممالک کے نام شامل نہیں ہیں جن میں دہشت گرد گروہ پروان چڑھتے ہیں یا ان ممالک سے گزر کر دہشت گرد مشرق وسطی کے جنگ زدہ علاقوں میں جاتے ہیں۔
اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس قانون کا متنازعہ بل تیار کرنے والے افراد کو دہشت گردی کے مقابلے کی فکر نہیں بلکہ وہ سیاسی، تشہیراتی اور انتخاباتی اہداف کے حصول کے درپے ہیں۔