Jan ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۶:۲۲ Asia/Tehran
  • آیت اللہ نمر کی شہادت اور سعودی عرب کے عزائم

سعودی عرب کے مذہبی پیشوا آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دینے کے آل سعود کے جرم نے بہت سے ایسے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں کہ جن کا باریکی سے جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ نمر کو اس حساس دور میں کیوں شہید کیاگیا- ؟ کیا سعودی عرب کے حکمرانوں کی امتیازی پالیسیوں پر شیخ نمر کی تنقید ریاض کے لئے اتنا بڑا خطرہ بن گئی تھی کہ سزائے موت کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا تھا؟گذشتہ دو دنوں سے سعودی عرب سے وابستہ عرب ٹی وی چینل اپنے تمام تجزیوں اور رپورٹوں کا رخ اس موضوع پر مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ سعودی عرب میں جو کچھ ہوا اس کی جڑیں ایران میں ہیں-

سعودی حکام نے اس زاویے سے پروپیگنڈہ کرتے ہوئے سنیچر کی شام ، تہران اور مشھد میں شیخ نمر کو سزائے موت دیئے جانے کے خلاف سعودی سفارت خانے اور قونصل خانے کے سامنے ہونے والے عوامی مظاہروں سے متعلق خبروں کو ایک منظم سازش کے تحت ریاض و تہران کے تعلقات میں باقاعدہ کشیدگی پیدا کرنے کی جانب موڑ دیا -

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اس واقعے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف اور خودسرانہ اقدام انجام دینے والوں کے خلاف تہران کی کارروائی کو نظر انداز کرتے ہوئے پورے مسئلے کو ہی تبدیل کر دیا اور نہایت عیاری سے گیند ایران کے کورٹ میں ڈال دی تاکہ دنیا پر یہ ظاہر کر سکیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں سفارت خانوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور وہاں سفارتی تحفظ کوئی مفھوم نہیں رکھتا- سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایران سے اپنے سفارتکاروں کو واپس بلا کر اور تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے اس ہنگامہ کو انجام تک پہنچا دیا-

سعودی عرب کی نگاہ میں سعودی عرب کے سفارتخانے اور قونصل خانے کے سامنے ہونے والا احتجاجی مظاہرہ ایران کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے ایک اچھے موقع میں تبدیل ہو گیا ہے- اس روش نے ظاہر کر دیا ہے کہ سعودی عرب نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ بہت پہلے ہی کر لیا تھا جس کے کئی ثبوت موجود ہیں ایک یہ کہ سعودی عرب کو شیخ نمر کے سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد کے ردعمل اور اس کی حساسیت کا پورا علم تھا اس کے باوجود اس نے اس واقعے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے اسے ایک اسٹریٹیجی کے طور پر اختیار کیا-

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران آیت اللہ نمر باقر النمر کہ جو دینی حمیت و غیرت کے باعث کھلے عام تنقید اور امر بالعمروف و نہی عن المنکر میں مصروف تھے کی سزائے موت کی مذمت کرتا ہے۔ اور پوری دنیا اور عالم اسلام سے بھی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرے- لیکن سعودی عرب کے مقاصد کچھ اور ہیں اور مسئلے کو دوسرے انداز میں اٹھا رہا ہے- اس سلسلے میں ریاض کی سازش یہ ہے کہ وہ ایران پر الزام لگا کر دو مقصد حاصل کرے - اس کا پہلا مقصد ایران کی سیاسی حیثیت کو خراب کرنا ہے اور اس کا مشاہدہ ، سعودی وزارت خارجہ کے عجلت پسندانہ اقدامات اور اقوام متحدہ ، عرب لیگ ، اسلامی تعاون تنظیم میں اس کے پروپیگنڈے اور تہران و مشہد سے سعودی عرب کے سفارتی عملے کو واپس بلا لینے کی شکل میں کیا جا سکتا ہے-

لیکن دوسرا اور اہم مقصد ریاض کو رائے عامہ اور بین الاقوامی دباؤ سے باہر نکالنا ہے- سعودی عرب نے ایک معروف اسلامی شخصیت کی سزائے موت کے غیرمنصفانہ اور ظالمانہ حکم پر ایسے عالم میں عمل درآمد کیا ہے کہ یمن پر حملے ، ہر روز بحرین کے مظلوم اور بے گناہ عوام کے قتل اور شدید سرکوبی ، نیز سعودی عرب میں عوامی احتجاج کو کچلنے کے ساتھ ہی تکفیری و صیہونی دہشت گرد گروہوں کی حمایت نے ریاض کو سخت مشکلات سے دوچار کر دیا ہے- اور یہی وجہ ہے کہ سعودی حکام نے شیخ نمر کو بھی پھانسی پانے والے سینتالیس افراد کی اس فہرست میں رکھا جس میں داعش کے دہشت گرد شامل تھے-

ان شواہد و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ریاض کو ایک نیا بحران کھڑا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس بند گلی سے نکل سکے لیکن سعودی عرب نے خطرناک کھیل شروع کیا ہے کہ جس کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو ریاض کے مفاد میں ہرگز نہیں نکلےگا- ان اقدامات کے پیچھے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کا ہاتھ ہے کہ جو علاقے میں نئی مہم جوئی کی کوشش میں ہیں اور سعودی عرب اس سازش کی ایک کڑی ہے- سعودی عرب کی نظر میں شاید شہری مطالبات ، شہریوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کے خلاف روز بروز بڑھتے ہوئے احتجاجی مظاہروں اور جمہوری حکومت کے فقدان کی کوئی حیثیت نہ ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعہ، سرکوبی ، تلوار کھینچنے اور دوسروں پر الزام لگانے سے ختم نہیں ہوگا- حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اب تک بہت سی غلطیاں کر چکا ہے-

سعودی عرب نے نہایت خطرناک راستہ اختیار کیا ہے جس کے انجام کی اسے خبر نہیں ہے- سعودی عرب شاید یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات اور اپنے حامیوں کو سستا تیل دے کر وہ علاقے کا توازن اپنے حق میں تبدیل کر لے گا لیکن تجربے اور آمروں و عوامی حمایت سے عاری حکومتوں کے انجام سے پتہ چلتا ہے کہ اس پالیسی سے ریاض کے اہداف پورے نہیں ہوں گے اور سعودی عرب ان اقدامات سے خود کو مشکل حالات اور ناقابل واپسی راستے پر ڈال دے گا-

ٹیگس