سعودی عرب کی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش
سعودی حکام، ان دنوں اپنے اشتعال انگیز اقدامات کے ذریعے علاقائی سطح پر اپنے کردار کی مثبت تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنا یہ مقصد، وہ ایران کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سعودی عرب کا یہ ایک پرانا طریقہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے وہ یمن، شام، بحرین اور عراق میں بھی کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اپنے خیال میں وہ کشیدگی پیدا کرنے کی اپنی اس پالیسی پر علاقائی و عالمی سطح پر اتحاد کی تشکیل کے ذریعے پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اس قسم کی پالیسی کو کہاں تک جاری رکھ پاتا ہے؟
موجودہ صورت حال میں ممکنہ طور پر سعودی عرب، یہ سوچتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات عمل میں لا کر وہ اپنی سیاسی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس قسم کے اقدامات سے ایک ایسا نیا بحران پیدا کر رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں خود ہی سب سے زیادہ نقصان اٹھائے گا۔
ریاض کی یہ غلطی بھی وہی ہے جس کا ارتکاب اس نے تنظیم اوپیک میں تیل کے سلسلے میں بھی کیا اور تیل کی قیمتوں کا بحران کھڑا کردیا صرف یہ سوچ کر کہ اس طرح سے ایران یا تیل کے حوالے سے اپنے دیگر حریفوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے حالانکہ اس وقت سعودی عرب خود ہی تیل کی قیمتیں گرنے اور اپنی اس روش کو جاری رکھنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے دوچار ہوگیا ہے۔
سفارت خانے کی سطح پر شروع کی جانے والی جنگ سے بھی سعودی عرب کو خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ دراصل سعودی حکام، حقائق کا انکار کر رہے ہیں تاہم وہ ہمیشہ حقائق سے نہیں لڑ سکتے۔ ایرانی حکام نے سعودی عرب کے سفارت خانے اور قونصل خانے پر ہونے والے حملوں کی فوری طور پر مذمت کی اور ان واقعات پر افسوس کا اظہار کیا اور صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اس سلسلے میں صدر مملکت، وزیر داخلہ اور عدلیہ کے سربراہ نے براہ راست مداخلت بھی کی اور خطاکاروں کو حراست میں لے کر اس بارے میں تحقیقات اور قانونی کارروائی کا عمل شروع بھی کردیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب، کچھ اور مقاصد کے درپے ہے اور اس کی حکمت عملی، ایران مخالف اتحاد تشکیل دینے پر مبنی وہی پرانے طریقوں جیسے کھوکھلے اقدامات پر استوار ہے جس کا ایک نمونہ، اتوار کے روز خلیج فارس تعاون کونسل کا ہنگامی اجلاس اور ایران کی مذمت میں اس کا دقیانوسی بیان ہے۔ سعودی عرب، اتوار کے روز عرب لیگ کے اجلاس میں بھی اپنے منظور نظر مقاصد کے درپے ہے۔
بلاشبہ سعودی عرب کے مواقف کو سفارتی نقطۂ نظر سے غیر منطقی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایران کے جوہری مذاکرات میں سعودی حکومت کے اقدامات اور صیہونی حکومت کے ساتھ اس کی یکسوئی، ریاض کے غلط اقدامات اور طور طریقوں کا ایک نمونہ ہے۔ ریاض کی حکومت، اس قسم کے اقدامات، سعودی عرب کے معروف عالم دین آیت اللہ شیخ باقر النمر کا سر قلم کرنے پر عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے غم و غصے اور وسیع پیمانے پر ہونے والی مذمت سے توجہ ہٹانے کے مقصد سے عمل میں لا رہی ہے اور وہ اپنے خیال میں ایران کے خلاف سیاسی واویلا مچا کر اصل مسئلہ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب، عرب اتحاد کی تشکیل اور ٹھوس عزم کے عنوان سے کارروائی شروع ہوجانے کے بعد خود ہی بہت بڑے بحران سے دوچار ہوگیا ہے اور اب وہ اس بحران سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ بحران سے باہر نکلنے کے لئے بھی اس نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے اس کا نتیجہ بھی علاقے کو صرف غیر مستحکم کرنا ہے۔
سعودی عرب، علاقے کے ملکوں کی سلامتی کے دائرے میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اس پالیسی کے تحت آل سعود، اپنا روائتی اثر و رسوخ جاری رکھنے اور علاقے میں سب سے بڑھکر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ سعودی حکام اس طریقے سے علاقے میں صرف عدم استحکام اور بدامنی بڑھنے کا ہی سبب بن رہے ہیں۔
سعودی عرب کے اس قسم کے اقدامات نے ریاض حکومت کی پوزیشن بہتر بنانے کے بجائے اس کی کمزوری کو مکمل طور پر نمایاں کردیا ہے۔آل سعود حکومت، ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرکے کوئی بھی نتیجہ سوچے سمجھے بغیر دیگر ملکوں پر بھی ایران سے تعلقات منقطع کرنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان جابر انصاری کی تعبیر کے مطابق سفارت خانہ بند کرنا نہ صرف یہ کہ کوئی فضیلت کی بات نہیں بلکہ اس اقدام سے اسے کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچے گا۔ اس صورت حال سے صرف منصوبہ سازوں کو وقتی طور پر کچھ تشہیراتی مواد فراہم ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بحران و کشیدگی پیدا کرنا سعودی عرب کے وجود اور اس کی خارجہ پالیسی کا حصہ بن گیا ہے اور ریاض نے جارحانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور سعودی حکمرانوں کا یہ طریقہ، ان کے لئے یقینی طور پر نقصان دہ ثابت ہوگا۔