ایران کے خلاف امریکہ میں منفی اقدامات
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی ایوان نمائیندگان اور سینیٹ کے ارکان یہ دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کی جائیں
وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ دی ہے کہ ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن اراکین کا ماننا ہے کہ ایران کے ساتھ پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کے بعد ایران نے جو دو میزائلوں کے تجربے کئے ہیں ان کے جواب میں وائٹ ہاوس کو چاہیے کہ وہ اپنی ساکھ بچانے کے لئے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرے اور انہیں آگے بڑھائے۔ امریکہ کے اس اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں بدھ کے دن ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کو دشوار بنانے کے بل کا جائزہ لیا جائے گا۔
امریکہ میں یہ اقدامات ایسے حالات میں سامنے آرہے ہیں کہ سعودی عرب کے پروپگینڈے اوراسکی جانب سے علاقائی سطح پر ایران کے تعلقات خراب کرنے کی مسلسل کوششوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماہنگی کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہاہے ۔ البتہ یہ مسئلہ چندان غیر متوقع بھی نہیں تھا کیونکہ بنیادی طورسے سعودی عرب شروع ہی سے ایران کے ایٹمی معاہدے کو برداشت نہیں کرپارہا تھا اور اس نے بحران پیدا کرکے اپنی سابقہ پوزیشن کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔
سعودی عرب نے ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدہ ہونے کے بعد سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ سعودی عرب کے اقدامات کی بنیاد یہ ڈر ہے کہ اسکی خود ساختہ ایرانوفوبیا کی عمارت ریت کے ڈھیر کی طرح گر رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے کو ناکام بنانے کے لئے علاقے میں انتہا پسندی کی حمایت کرکے عدم استحکام پھیلانے اور کشیدگی میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
امریکہ میں صیہونی لابی بھی نہیں چاہتی کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد ہو، صیہونی لابیاں بھی علاقے کے مصنوعی بحرانوں کے حل کی مخالف ہیں کیونکہ ان کی سیاسی بقا اور وجود کا دارو مدار بھی ان بحرانوں کے جاری رہنے پر ہے۔ اس نقطہ نظر سے علاقے میں سعودی عرب اور امریکی صیہونی اقدامات کا ھدف ایک ہی ہے۔
اس وقت سعودی عرب ایران کے خلاف اپنے اشتعال انگیز اقدامات سے اس سناریو کی تکمیل کرنے اور کانگریس میں صیہونیوں کے اقدامات میں تیزی لانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ سعودی عرب کے اقدامات کی نوعیت سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اب ایران کا ایٹمی مسئلہ حل ہوچکا ہے۔
ریاض حکومت اسی وجہ سے اب کوئی نیا متبادل سناریو تلاش کررہی ہے۔ سعودی عرب گذشتہ برسوں میں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ انتہا پسندی کی حمایت کرکے علاقائی حالات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتا ہے۔ سعودی عرب کے لئے یہ اسٹراٹیجی نہایت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس سے آل سعود کو ان اھداف کے حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو وہ ایٹمی مسئلے کے بہانے ایرانوفوبیا کو ہوا دے کر حاصل نہیں کرپائی تھی۔ اب وہ کسی اور بہانے سے یہ اھداف حاصل کرسکتی ہے۔
سعودی عرب اور اسکے اتحادی جو ہرسال اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدتے ہیں اب یمن میں پھنس چکے ہیں۔ آل سعود کو شام کے مسئلے میں بھی مکمل طرح سے شکست ہو ئی ہےاور شام میں بشار اسد کی حکومت کو گرانے کے لئے اس نے جو دہشتگردوں کی بے پناہ مدد کی تھی اس کا بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے باوجود علاقے اور عالمی سطح پر انتہا پسندی کی حمایت جاری رکھنا آل سعود کی پالیسیوں میں سرفہرست ہے جبکہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کشیدگی اور بحران سے محض ان لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے جو ہمسایہ ملکوں کی دوستی اور علاقے میں امن و استحکام نیز حقیقی معنوں میں تعاون بالخصوص انتہا پسندی کے مقابلے میں تعاون کو اپنے نقصان میں دیکھتے ہیں۔
اتفاق سے اس طرح کے ممالک ہی دہشتگردی کے خلاف نام نہاد تحریک چلا کر ان ملکوں کے درمیان تعمیری تعاون کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں جو حقیقی معنی میں دہشتگردی کے خلاف مقابلہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
حقائق سے پتہ چلتا ہےکہ گیارہ ستمبر سے لے کر سن برناردینو کے واقعے تک زیادہ تر اقدامات اور انتہا پسندوں کے ہاتھوں جو بھی اس درمیان قتل عام کے واقعات پیش آئے ہیں ان سب میں سعودی عرب کے باشندے ملوث ہیں اور اسکے علاوہ القاعدہ سے لے کر جبھۃ النصرہ جیسے دہشتگرد گروہ ہیں ان سب میں بیشتر رکن سعودی باشندے یا وہ افراد ہیں جنہیں پٹرو ڈالروں کی چمک سے برین واش کردیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں ایران کے خلاف پروپگنڈے اور ایرانو فوبیا کو ہوا دینا خواہ وہ امریکی کانگریس میں ہو یا سعودی عرب کی نمائشی نشستوں میں حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتا۔