انڈونیشیا کی وزیر خارجہ کی صدر مملکت سے ملاقات
آج علاقے کے بہت سے ممالک دہشت گردی اور انتہاپسندی کا شکار ہیں اور ایسے حالات میں تمام اسلامی ملکوں اور اداروں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ عالم اسلام میں زیادہ سے زیادہ اتحاد و اتفاق اور امن و استحکام کے لیے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے انڈونیشیا کی وزیر خارجہ محترمہ رتنو مرسودی سے تہران میں ہونے والی ملاقات میں اس مسئلے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علاقے اور عالم اسلام کے حالات کچھ اس طرح ہیں کہ اسلامی ممالک کو پہلے سے زیادہ آپس میں صلاح و مشورہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں دوسروں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسلامی ممالک علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے کافی وسائل اور طاقت رکھتے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام کا اصلی مسئلہ منظم دہشت گردی، تشدد اور انتہا پسندی کا پھیلنا ہے۔
سعودی عرب سمیت علاقے کے بعض ممالک کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کہ جو درحقیقت علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف و مقاصد کی خدمت ہے، علاقے اور عالم اسلام کے استحکام اور اتحاد کو خراب کرنے، دیرینہ نسلی اور مذہبی تنازعات اور تفرقہ پیدا ہونے کا باعث بنی ہے۔ اس مسئلے کا تعلق علاقے میں استعمار کی تاریخ سے ہے کہ جس کا کئی صدیوں سے علاقے کی تبدیلیوں میں فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ لیکن اس وقت استعماری دور کے حالات اور سیاسی تعلقات تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس نئے دور میں عالم اسلام کی ضرورت، گزشتہ تعلقات پر نظرثانی کرنا اور مستقبل کو نئے انداز سے دیکھنا ہے۔
انڈونیشیا جیسے ممالک اس سلسلے میں قدم آگے بڑھا سکتے ہیں کہ جن کا ناوابستہ تحریک جیسی تنظیموں کی تشکیل میں اہم کردار رہا ہے۔ علاقے میں امن و استحکام کے بارے میں انڈونیشیا کی وزیر خارجہ رتنو مرسودی کا نقطہ نظر کہ جن کا خیال ہے کہ مسلمان ملکوں کے اچھے اور دوستانہ تعلقات علاقے میں امن و استحکام قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں ایران اور انڈونیشیا کا نقطہ نظر یکساں ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سمیت عالم اسلام کے اصل چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں آج ہونے والے بم دھماکوں نے اس ملک کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا کہ جو ایک عرصے سے امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں متعدد بےگناہ عام شہری جاں بحق اور زخمی ہو گئے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کو مزید واضح اور نمایاں کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے پاس اس بڑی مشکل کو حل کرنے اور ترقی و پیشرفت تک پہنچنے کے لیے اتحاد، وسیع تعاون اور قریبی تعلقات کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن عالم اسلام کو اس سلسلے میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک رکاوٹ بعض مسلمان حکومتوں میں اتحاد کے لیے سنجیدہ ارادے کا نہ ہونا ہے کہ جو عظیم قدرتی ذخائر اور بےشمار دولت ہونے کے باوجود غیرملکی طاقتوں پر بھروسے اور ان سے وابستگی کو اپنی بقا کا راز سمجھتی ہیں۔ یہی ممالک دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اتحاد قائم کرنے کے لیے اسلامی ممالک کے درمیان حقیقی تعاون کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے انڈونیشیا کی وزیر خارجہ سے ملاقات میں جو کچھ کہا وہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ایران ہمیشہ اپنے ہمسایہ اور علاقے کے ممالک کے درمیان اچھے، گہرے اور برادرانہ تعلقات کے قیام کا خواہاں رہا ہے اور علاقائی ترقی، پائیدار امن اور اتحاد کے راستے پر دوسرے ملکوں کی مدد کرنے پر تیار ہے۔ تشدد سے پاک دنیا کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی ایران کی تجویز کہ جسے جنرل اسمبلی نے منظور کر لیا ہے، عالمی سطح پر امن و سلامتی کے سلسلے میں ایران کے نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے؛ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اجتماعی تعاون خاص طور پر اسلامی ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے۔ تمام اسلامی ممالک اور اداروں کو اس سلسلے میں ایک دوسرے کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہیے اور عالم اسلام میں استحکام اور مزید اتحاد کے لیے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔