جامع مشترکہ ایکشن پلان سینتیس سالہ استقامت کا نتیجہ
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پابندیاں اٹھائے جانے اور گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کے بارے میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کے خط کے جواب میں اہم نکات کی جانب اشارہ فرمایاہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے امریکہ کے فریب اور چال بازیوں نیز ماضی میں امریکیوں کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر ہوشیاری سے کام لینے پر تاکید فرمائی- آپ نے فرمایا کہ اس بات پر گہری نظر رکھی جائے کہ فریق مقابل معاہدوں پر پوری طرح عمل کرے کیونکہ حالیہ دنوں میں بعض امریکی سیاستدانوں کے بیانات ، پوری طرح بدگمانی کا باعث بنے ہیں-
امریکی حکومت نےگذشتہ سینتیس برسوں سے یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے، اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنی میں کسی بھی طرح کے اقدام سے دریغ نہیں کیا ہے-
اس دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے علاقے میں انتہاپسندی اور تشدد پسندی کے خلاف جد و جہد کے لئے اقدامات بھی کئے ہیں- اور ان اقدامات سے امریکہ بھی کہ جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کا دعوے دار ہے ، بہرہ مند ہوا-
اس سلسلے میں دوہزار ایک میں افغانستان پر امریکہ کے حملے کے وقت دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جد و جہد میں ایران کے اقدامات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے- لیکن امریکی حکومت نے افغانستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ایران کی جد و جہد کی قدردانی کرنے کے بجائے بش کے دور حکومت میں ایران کو بدی کا محور قرار دیا- اور اس وقت بھی امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم کے دوران ، صدارتی امیدوار، ایران کے خلاف بیانات دے رہے ہیں کہ جو جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سلسلے میں بدگمانی کا باعث بن رہے ہیں -
جامع مشترکہ ایکشن پلان پرعمل درآمد اور ظالمانہ پابندیاں اٹھائے جانے کی مناسبت سے صدر مملکت کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے جوابی خط میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ عظیم کامیابی کیسے حاصل ہوئی ؟
آپ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ : منھ زور اور سامراجی محاذ کے مقابلے میں حاصل ہونے والی یہ کامیابی استقامت و پائیداری کا نتیجہ ہے اور ہم سب کو اسے اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام معاملات اور واقعات کے سلسلے میں سبق آموز قرار دینا چاہئے- ایٹمی حقوق کے حصول کے لئے چھ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ تقریبا دو سال تک مذاکرات کرنے جیسا واقعہ عالمی نظام میں بے مثال ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کی مذاکراتی ٹیم نے چھ طاقتوں سے مذاکرات کئے جن میں امریکہ نے جو اسلامی جمہوریہ ایران کا اصلی دشمن ہے ، ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام اور تنصیبات کو ختم کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دی تھی - تسلط پسند نظام نے سخت ترین پابندیاں عائد کرکے ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہا تھا- جس چیز نے تسلط پسند نظام کو ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے اور تمام بنیادی تنصیبات کو باقی رکھتے ہوئے ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا وہ گذشتہ سینتیس برسوں سے جاری سامراج کی منھ زوری اور سازشوں کے سامنے ایرانی عوام کی مزاحمت و استقامت ہے- ملت ایران نے عالمی نظام اور علاقے میں اپنی عظمت و طاقت کو منوانے کے لئے بھاری قیمت ادا کی ہے-
رہبرانقلاب اسلامی نے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کے نام اپنے جوابی خط کے ایک حصے میں حکام کو اقتصادی مسائل سے باہر نکلنے کے لئے استقامتی اقتصاد کو جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی ۔ آپ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ : تمام حکام کو یاد دہانی کرا دی جائے کہ ملک کے اقتصادی مسائل کاحل، استقامتی اقتصاد کے لئے تمام میدانوں میں مسلسل عاقلانہ کوششوں سے ہی ممکن ہے اور عوام کی معیشت اور ملکی اقتصاد میں بہتری کے لئے صرف پابندیوں کا اٹھا لیا جانا ہی کافی نہیں ہے-