Feb ۰۲, ۲۰۱۶ ۱۷:۰۸ Asia/Tehran
  • ایران کے ساتھ مختلف ملکوں کاتعاون

جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد اور ایران پرعائد پابندیوں کے ہٹائے جانےکے بعد سے یورپی اور ایشیائی ملکوں اور ایران کے درمیان سیاسی اور اقتصادی وفود کی آمد و رفت میں کافی اضافہ ہوا ہے

اسی سلسلے میں جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائین مایر ایرانی حکام سے ملاقات اور گفتگو کرنے کی غرض سے منگل کو تہران آنے والے ہیں۔ اشتاین مایر تہران کے دورے میں اپنے ساتھ ایک اقتصادی تجارتی وفد بھی لے کر آرہے ہیں۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ایرانی حکام سے ملاقات میں اقتصادی موضوعات کے علاوہ علاقے کے بحرانوں منجملہ شام کےبحران اور دہشتگردی کے بارے میں بھی صلاح و مشورہ کریں گے۔ یہ ڈائیلاگ اس اہمیت کی نشاندھی کرتا ہے کہ جرمنی یورپ کے ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے سیاسی اور اقتصادی تعاون میں ایران کے اہم مقام کا قائل ہے۔ پہلا گروہ جو گذشتہ ماہ یورپ سے ایران آیا تھا وہ بھی جرمنی کا وفد ہی تھا اور یہ وفد جرمن وزیر اقتصاد کی سربراہی میں ایران آیا تھا۔ جرمنی کے چیمبرس آف کامرس کے بعض عھدیداروں کا خیال ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین کی شرح بارہ ارب یورو تک پہنچ سکتی ہے۔

جرمن وزیر خارجہ کا دورہ ایران ایسے حالات میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی تعاون میں فروغ لانے کے لئے انجام پارہا ہے کہ یونان کے وزیر اعظم الیکسیس سیپراس نے بھی آئندہ دنوں میں تہران کا دورہ کرنے کی بات کی ہے اور ان کادورہ بھی اقتصادی و تجارتی اھداف کے پیش نظر انجام پائے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران اور پانج جمع ایک گروپ کے درمیان جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درامد شروع ہوئے دو ہفتے کا وقت گذر رہا ہے اور اس دوران یورپ، ایشیا اور مشرق وسطی کے علاقے کے بڑے بڑے سیاسی اور اقتصادی وفود ایران کے ساتھ تعلقات میں فروغ لانے کی غرض سے تہران کے دورے پر آئے ہیں۔ واضح رہے گذشتہ ہفتے بھی آسٹریا کا ایک اعلی رتبہ اقتصادی وفد ایران آیا تھا اور اس نے آٹو موبائیل انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، متبادل انرجی کے ذخائر کے شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے موضوعات پر گفتـگو کی تھی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر اقتصاد علی طیب نیا بھی آج جاپان کے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں جہان وہ دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے حالیہ دورہ اٹلی اور فرانس میں بھی تقریبا تعاون کے تیس مفاہمتی نوٹوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ ان مفاہمتی نوٹوں سے ایران کے ساتھ ان دو ملکوں کا مختلف میدانوں میں ہمہ گیر اور مشترکہ تعاون وجود میں آجائے گا۔ یہ مذاکرات تیل اور گیس کے شعبوں میں تیل کی قیمت کے کم رہنے کے باوجود بڑے موثر رہے ہیں اور تیل کی بڑی بڑی کمپنیوں جیسے ٹوٹل، آنی، لوک آئیل اور دیگر کمپنیوں کے ایران واپس آنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ فرانس کی ٹوٹل کمپنی آئیل فیلڈز میں ایران کے ساتھ تعاون کررہی تھی۔ اب جب پابندیاں ہٹ گئی ہیں تو ٹوٹل کمپنی نے ایران واپس آنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور حالیہ مذاکرات میں ایران اور اس کمپنی کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا ہے تا کہ مشترکہ تعاون دوبارہ شروع ہوسکے۔

ان دوروں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایران تمام ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توسیع لانا چاہتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ تعلقات علاقے میں اقتصادی حالات کے بہتر ہونے اور امن و سلامتی کی صورتحال میں استحکام لانے میں مدد کریں گے۔ توقع کی جارہی ہے کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درامد سے ایران کے ہمسایہ ملکوں بالخصوص خلیج فارس کے عرب ملکوں کے ساتھ توانائیوں اور مشترکہ مفادات کے تناسب سے تعلقات میں فروغ آئے گا۔ تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ مشترکہ مفادات کے مطابق تعاون سب کے لئے امن و سکیورٹی میں استحکام کا سبب بنتا ہے لھذا ایران کبھی بھی علاقے کے کسی بھی ملک سے کشیدگی کا خواہاں نہیں رہا ہے اور نہ ہے بلکہ ترجیح دیتا ہے کہ نئے حالات میں مستقبل پر نگاہ رکھ کر اور طویل مدت پروگرام کے تحت تمام ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے۔

ٹیگس